Table of contents
Summary in Urdu
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حج اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے جو سن 9 ہجری میں فرض ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 10 ہجری میں ایک حج کیا، جو حجۃ الوداع کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس حج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجِ قیران کیا جبکہ زیادہ تر صحابہ نے حجِ افراد کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تمتع کرنے کا حکم دیا کیونکہ ان کو حج کے صحیح طریقے کا علم نہیں تھا۔ حج تین طرح کا ہوتا ہے: تمتع، افراد، اور قیران۔ تمتع اور قیران میں عمرہ اور حج ایک ہی سفر میں کیے جاتے ہیں، جبکہ افراد میں صرف حج کیا جاتا ہے۔
احرام کی حالت میں کچھ پابندیاں ہوتی ہیں جیسے سلے ہوئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، اور شکار کرنا منع ہوتا ہے۔ مکہ پہنچ کر حاجی طواف کرتے ہیں، پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ تمتع کرنے والے احرام کھول دیتے ہیں اور آٹھویں ذوالحجہ کو دوبارہ احرام باندھتے ہیں۔ حاجی آٹھویں ذوالحجہ کو منیٰ جاتے ہیں، نویں ذوالحجہ کو عرفات میں وقوف کرتے ہیں، اور دسویں ذوالحجہ کو رمی، قربانی، اور حلق یا قصر کرتے ہیں۔ پھر طوافِ افاضہ کرتے ہیں اور منیٰ واپس آتے ہیں۔
گیارہویں اور بارہویں ذوالحجہ کو بھی رمی کرتے ہیں۔ واپسی سے پہلے طوافِ وداع کرتے ہیں۔
Video in Urdu
Hajj kay baray main tafsili video Mufti Umer Sahib kay saath.
Audio / Podcast in Urdu
AI Generated Transcription in Urdu
This is an AI generated transcription thus it is prone to errors.
بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمد للہ رب العالمین، والصلاة والسلام علی رسولِ نبی الأمین، وعلى آلِهِ وصحابتِهِ، الغررِ المیمین، ومن تبع عنهم بإحسان إلى يوم الدین، اما بعد۔
حج اسلام کا ایک اہم فرضہ ہے جو سن نوہ ہجری کو فرض ہوا ہے، فرض ہونے کے بعد آپﷺ نے ایک حج کیا، سن دس ہجری کو جو حجت الودع تھا۔ یہ آپﷺ کا فرضیت کے بعد اسلام میں پہلا اور آخری حج تھا جس میں آپﷺ کے ساتھ صحابہ تمام صحابہ جوک در جوک شریف ہوئے، کسرت کے ساتھ سوالات کا مجموعہ آپﷺ کے ساتھ اس حج کے موقع پر تھا۔ آپﷺ نے جو حج کیا وہ حجِ قیران تھا اور اکثر صحابہ نے افراد کی نیت کری تھی، پھر آپﷺ کو تمتوں کا حکم دیا۔
کیونکہ پہلا حج تھا ان کو پتہ نہیں تھا کس طرح کرنا ہے، تو اسلام سے پہلے عربوں میں یہ تصور اور اصول تھا کہ حج کے سفر میں عمرہ نہیں کر سکتے، صرف ایک حج ہوتا ہے افراد، تمتوں اور قیران کا تصور ان کے آئے نہیں تھا۔ تو سمجھے کہ حج افرادی ہوگا اور تمتوں قیران نہیں ہو سکتا، یعنی عمرہ نہیں کر سکتے، تو وہی ان کے ذہن میں تھا اللہ کے نبیﷺ نے صحابہ کو تمتوں کا حکم دیا، تو اکثر صحابہ نے تمتوں حج کیا، آپﷺ نے خود قیران کیا، آپﷺ ساتھ میں جانور لے کے گئے تھے قربانی کا۔ فرمایا اگر یہ میں لے کے نہیں آتا تو میں بھی تمہاری طرح تمتوں کر لیتا۔
تو اگرچہ قیران میں قربانی کا جانور ساتھ لے جانا ضروری نہیں ہے، لیکن اُس زمانے میں اکثر حضرات جو حج پہ آتے تھے ساتھ میں قربانی کا جانور لے کے آتے تھے، تمتوں والے بھی اکثر لے کے آتے تھے اور قیران والے بھی اکثر لے کے آتے تھے قربانی کا جانور ساتھ میں۔ لیکن اُلانا ضروری نہیں ہے اور اِس زمانے میں تو جانور ساتھ لے جانے کا تصور ختم ہو گیا، اب تو وہیں خرید کر ہی، وہیں جو سرکاری نظام ہے اُس کے تابع ہو کا قربانی کرنا پڑتی ہے، تو بہرحال قیران کے لیے جانور ساتھ لے جانا کوئی لازم نہیں ہوتا، اُس کے بغیر بھی ہو جاتا ہے۔
تو صحابہ نے تمتوں حج کیا، حج کی تین قسمیں ہیں، تمتوں، افراد اور قیران، افراد جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں، جدہ والے ہیں، بحرہ والے، جمعون والے، عثمان والے، جتنے بھی میقات کے اندر رہنے والے لوگ ہیں، ثوال والے، اِن سب کے لئے حج افراد ہے۔ میقات کے اندر رہنے والوں کے لئے حج تمتوں نہیں ہیں، حج قیران نہیں ہیں، اِس صرف حج افراد کر سکتے ہیں۔ اگر یہ تمتوں یا قیران کریں گے تو اِن کی ذمہ بکرا دم آتا ہے۔
آپﷺ نے حج قیران کیا، مدینی سے کیا، صحابہ نے تمتوں کیا تو مدینی سے کیا، عفاقی لوگوں کے لئے، قرآن پاکﷺ میں ہے ذالیک لیمن لم يکون اہل ہو حاضر المسلح حرام دیا تمتوں کا حکم دیا اللہ نے ذکر کیا، اُن لوگوں کے لئے فرمایا جو بیت اللہ کے آس پاس رہنے والے نہیں ہیں۔
تو جو مقات کے اندر ہیں یہ بیت اللہ کے قریب رہنے والے لوگ ہیں، چونکہ دور سے جو لوگ آتے تھے اُن کے لئے بار بار سفر کرنا آسان نہیں ہوتا تھا، اُن زمانے کا سفر بہت مشکت کا ہوتا ہے، آج کا سفر تو لمحوں کا ہوتا ہے، اُن زمانے کا سفر تو دنوں کا ہوتا تھا، ہفتوں کا، مہینوں کا سفر ہوتا تھا۔ مدینے سے بھی دس دن، بارہ دن، چودہ دن تک لگتے تھے مدینے سے مکہ پہنچنے میں بھی، تو مدینے سے مکہ پہنچنے میں بھی آٹھ دس دن تو لگی جاتے تھے کم اس کم، تو اب اتنی مشکت کا سفر کر کے، خاص طور پر اگر گرمی کا زمانہ ہو لو چلتی تھی تیز، آج کل کی طرح کوئی سواریاں تو تھی نہیں، سہولت کے سفر نہیں تھے، مشکت کے سفر تھے۔
تو جو باہر سے آتے تھے ان کو سہولت دی گئی کہ ایک سفر میں دو کام کر سکتے ہیں، ایک سفر میں عمرہ اور ایک سفر میں حج، اب ایک سفر میں عمرہ اور حج کیا تو تمتہ و قیران میں یہی بنیادی فرق ہیں، تمتہ و قیران میں یہ ہے کہ آپ حج سے کے سفر میں عمرہ بھی کر سکتے ہیں اور حج دونوں ساتھ میں۔ تمتہ میں عمرہ کر کے احرام کھول دیا جاتا ہے، قیران میں جو ہے عمرہ کر کے احرام میں ہی رہتے ہیں، احرام کھلتا نہیں دونوں نیتیں ساتھ میں ہوتی ہیں، تمتہ میں پہلے عمرہ کی نیت ہوتی ہے، پھر مکہ میں عمرہ کر کے حلال ہونے کے بعد پھر حج کی نیت کی جاتی ہے، یہ تمتہ کے ترطیب ہیں۔
قیران میں دونوں نیتیں مکہ سے ہی ساتھ میں ہوگی، اگر مدینہ سے نکلے یا جو اپنی مکہ سے وہیں سے تو عمرہ کی بھی اور حج کی بھی نیت ساتھ کر کے نکلتے ہیں، تو اس میں دونوں نیتیں ساتھ ہوتی ہیں تو اس میں عمرہ کے بعد حلال نہیں ہوتے، بلکہ احرام میں باقی رہتے ہیں قیران میں، تو تمتہ میں حلال ہو جاتے ہیں، تو تمتہ و قیران میں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں عمرہ پہلے کر سکتے ہیں، ایک سفر میں دو عبادتیں ہوتی ہیں، اب دو عبادتیں ہونے کے وجہ سے اس پر شکرانے کی قربانی واجب ہوتی ہے، تمتہ و قیران میں جو دس تاریخ کو قربانی کی جائے گی، کنکری مار کے، قربانی کر کے پھر حلق و تقصیر کرتے ہیں، احرام سے نکلتے ہیں تو تمتہ و قیران میں شکرانے کی طور پر قربانی واجب ہوتی ہے، دمش شکر ہوتا ہے، افراد میں، چونکہ پہلے عمرہ نہیں ہوتا، افراد کے مطابق یہ صرف حج، ایک کام کرنا، دو کام نہیں اس میں ایک کام ہے حج کا، اس میں عمرہ شامل نہیں ہوتا تو اس لئے افراد میں جو ہے، چونکہ پہلے کوئی عمرہ نہیں ہوتا، تو اس وجہ سے افراد میں قربانی لازم نہیں ہوتی، البتہ قربانی اس میں بھی مستحب ہے، کوئی کرے تو بہتر ہے لیکن لازم نہیں ہے، لازم جب ہوتی ہے جب پہلے عمرہ کیا جائے تو جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں، ان کے لئے افراد متعیین ہیں، ان کو اختیار نہیں ہوتا کہ وہ تمتہ و قیران کریں، ان کو افرادی کرنا ہوتا ہے تو افراد کرنے کے شکل میں قربانی دینا چاہیں، اگر پہلہ حج ہے اللہ نے کوئی جائش دی تو قربانی دے، بہت بہتر ہے لیکن لازم نہیں ہے قربانی اور اگر میقات کے اندر والے یہ سوچیں کہ ہم تمتہ کر لیں یا قیران کر لیں، تو اگر یہ لوگ عمرہ کر لیں گے پہلے حج کے مہینوں میں، حج کے مہینے شروع ہوتے ہیں عید کے چاند سے، رمضان کی عید جو ہوتی ہے، عید کا چاند ہو جائے تو اس کے بعد حج کے مہینے شروع ہو جاتے ہیں تو یہ لوگ اگر حج کے مہینوں میں عمرہ کر لیں اور پھر حج کریں تو ان پر دم آ جاتا ہے، کیونکہ ان کے لئے افراد ہیں تمتہ نہیں ہیں، عمرہ کر لیا تو تمتہ کے شکل بن گئی اور اس کی وجہ سے حج میں دم دینا ہوتا ہے تو میقات کے اندر رہنے والوں کے لئے صرف حج افراد ہیں، ان کے لئے صرف حج افراد ہیں، یہ حج سے پہلے عمرہ نہیں کریں گے اور قربانی جو ہے ان کے لئے مصحابِ مصنون ہیں، کرے تو ثواب ہے، نہ کرے تو پھر قربانی میں کوئی حراج نہیں ہے اور جو عفاقی ہیں وہ تمتہ قرآن اکثر کرتے ہیں، قرآن امام ونیفہ کے ہیں افضل ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حج حجہ قرآن تھا اور امام شافی وغیرہ کے ہیں تمتہ افضل ہے اور آشکل کے حالات میں اکثر تمتہ کا ہی مشورہ دیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کے مسائل تھوڑے زیادہ مشکل ہیں، دونیتیں ساتھ میں ہوتی ہیں اور اس میں کافی کنفیوزن لوگوں کو ہوتا ہے اور قرآن میں یہ ہے کہ اگر انسان سے غلطی ہو جائے، جب حالتِ احرام میں غلطی ہو جائے تو دو دم لازم ہوتے ہیں، کیونکہ دو نیتیں ہیں تو دو بکرے دم ہوتے ہیں، ایک عمرے کا ایک ہجہ کا دو نیتیں ہونے کی وجہ سے تمتوں میں اگر غلطی ہو تو ایک ہی دم ہوگا اور اگر افراد میں غلطی ہو تو ایک ہی دم ہوتا ہے، قرآن میں غلطی ہو جائے تو دو دم ہوتے ہیں دو نیتوں کی وجہ سے، تو اس لئے قرآن فضیلت والا تو ہے لیکن مشکل بھی ہے جس کو قرآن کے مسائل پورے آتے ہیں تو وہ تو قرآن کرے لیکن جس کو پورے مسائل مستحضر نہیں ہیں، ذہن نشین نہیں ہیں تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ تمتوں کر لیں، اگر آفاقی ہے مقات کے باہر رہتا ہے تو اس کے لئے تمتوں زیادہ بہتر ہوتا ہے تو یہ تمتوں اور قرآن اور افراد کا فرق ہے اب حج کا طریقہ کیا ہے اور کس طرح حج کیا جائے حج کرنے سے پہلے اب جو لوگ عمرے کا احرام باندھیں گے وہ بھی خالی حج کے باندھیں گے وہ بھی سب کو احرام تو مقات سے باندھا ہوتا ہے یا مقات سے پہلے جن کا سفر جہاز سے ہوتا ہے تو ان کے ذمہ ہوتا ہے کہ جہاز میں بیٹھنے سے پہلے ہی احرام باندھ کے بیٹھیں جہاز سے جن کا سفر ہے یا جن کا سفر ٹرین سے ہے مدینے سے وہ بھی احرام باندھ کر ہی ٹرین میں بیٹھیں دو رکعت پڑھ کے احرام باندھیں اور جہاز میں بیٹھنے سے پہلے یا ٹرین میں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لیں اگر مکروہ وقت نہ ہو کیونکہ مکروہ وقت میں نیت کی دو رکعت جو احرام کی وہ نہیں پڑھیا تھی تو وہ بیٹھنے سے پہلے ہی دو رکعت پڑھ لیں اور جہاز میں بیٹھتے ہی فورا نیت کر لیں اور مدینے سے اگر ٹرین میں سفر ہے تو ٹرین میں بیٹھتے ہی فورا نیت کر کے لپ بیک پڑھ لیں یا بیٹھنے سے پہلے کر لیں زیادہ بہتر ہے کیونکہ ٹرین جو ہے اگر چل دی چلنے کے بعد جو لوگ نیت کرتے ہیں تو ان پر اکثر دم آ جاتا ہے کیونکہ مقات لمحوں میں گزر جاتی ہے ٹرین ٹرین جو ہے مقات مدینے کے ساتھ ہے مدینے کی تو لمحوں میں گزر جاتی ہے اس وجہ سے چلنے سے پہلے نیت کر کے جب ٹرین میں بیٹھنے سے پہلے نیت کر لیں اور لپ بیک پڑھ لیں پھر ٹرین میں بیٹھیں بہتر ہے یا بیٹھتے ہی فورا نیت کر کے لپ بیک پڑھ لیں اور جہاز والے بھی بیٹھنے کے بعد جو ہے نیت اور لپ بیک پڑھ لیں یہ بہتر ہے انتظار نہ کرے اعلان کا، اعلان کا انتظار کرنے والوں پر اکثر دم آتا ہے کیونکہ مقات سے احرام وہ بانتا ہے وہ نیت کرتا ہے جو وہاں رکھتا ہے گاڑی رکھتی ہے جہاز تو رکھتا نہیں جہاز تو ایک لمحے کے اندر گزر جاتا ہے اعلان ہوتے ہوتے اکثر جہاز گزر جاتا ہے لوگوں کے لپ بیک ہی شروع نہیں ہوتی اگر لپ بیک بھی نہیں پڑھی مقات کی بات پڑھی تب ہی دم آ جائے گا نیت کرتے کرتے بعض لوگ تو غفلت میں نین لگ جاتی ہے یا غفلت میں اعلان نہیں ہوا اعلان رہ گیا تو پھر دم آ جاتا ہے تو اس لیے جہاز سے زفر کرنے والوں کے لیے بیٹھتے ہی فورا نیت کر کے لپ بیک پڑھ لینا چاہیے اب اس میں یہاں سعودی عرب سے جو آتے ہیں ان کے لئے مسئلہ گروپ کا ہوتا ہے کسی کا گروپ جدے سے ہے کسی کا طائف سے ہے ان کے لئے بہتر شکل یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ جب آ رہے ہیں مقات کے باہر سے جدے والوں کا تو مسئلہ نہیں ہے جدے سے گروپ ہے لیکن جو باہر سے آ رہے ہیں اب اگر ان کا گروپ جدے سے ہے تو ان کے لئے بہتر یہ ہوتا ہے کہ احرام عمرہ کا باندھ کر آئیں آ کر عمرہ کر کے حلال ہو جائیں سر کے بال مڑا دیں مکہ میں حدود حرم میں کیونکہ حلق حدود حرم میں ضروری ہے حلال ہونے کے بعد جدہ آ جائے اپنا گروپ جوان کر لیں پھر حج کے احرام باندھ کے مینہ چلے جائیں گروپ کے ساتھ تو یہ ترتیب زیادہ بہتر ہے اور اگر طائف سے گروپ جا رہا ہے تو بھی اگر طائف سے وہ جا کے عمرہ کر آتے ہیں تو کیونکہ باہر سے جو گروپ آتے ہیں اگر آپ نے پہلے عمرہ کر لیا تو وہ حرم لے جانا جائیں تب بھی دونوں شکلوں میں آپ کے لئے مناسب ہوتا ہے آپ پر فرق نہیں بڑھتا کیونکہ آپ اپنا عمرہ کر کے حلال ہو چکے ہیں عمرہ نہیں کیا تو اگر وہ نہیں لے گئے تو مشکل ہو جائے گی تو اس لئے احرام باندھ کے عمرہ کر کے جوائن ہو تو بہتر ہوتا ہے اب آپ نے جب احرام باندھے احرام باندھنے سے پہلے غسل کرتے ہیں اب ایک مسئلہ یہ آتا ہے کہ دلحجہ کا مہینہ ہے اب اس میں قربانی کرتے ہیں لوگ قربانی دو طرح کی ہوتی ہے ایک قربانی ہوتی ہے حج کی اور ایک قربانی ہوتی ہے عید والی صاحبِ نصاب کی دونوں قربانی الگ الگ ہیں تمہتوک قرآن کے جو قربانی حج والی ہوتی ہے یہ تو واجب ہیں یہ واجب ہے اور اس کو حدودِ حرم میں کیا جاتا ہے ترتیب سے کیا جاتا ہے دس تاریخ کو کنکری ماننے کے بعد یہ کئی اور نہیں ہوتی اور اس کا تعلق سفر سے نہیں ہے بلکہ حج سے ہے چاہے آپ مسافر ہو یا مقیم ہو چکے آپ نے تمہتوک قرآن کیا ہے تو آپ کو یہ قربانی کرنا پڑے گی تمہتوک قرآن کے قربانی کی وجہ سے احرام کے حالت میں تو آپ کے لئے بال کاٹنا منع ہے قربانی کے وجہ سے نہیں لیکن جو عید والی قربانی کرتا ہے اس کے لئے مصحابی ہوتا ہے کہ عید کے چاند سے ذوالحجہ کے چاند جب شروع ہوتا ہے ذوالحجہ کے چاند جب ہو جائے ذوالحجہ کے چاند ہوتے ہیں اس سے پہلے اپنے ناخن بال کے صفائی کر لیں اور پھر قربانی کے بعد کر لیں جو عید والی کر رہا ہے اس کا مسئلہ ہے جو حج والی کر رہا ہے وہ احرام باننے سے پہلے ناخن بال کاٹ سکتے ہیں اس کے لئے کوئی پابندی نہیں ہے تو حج والی قربانی کے مسئلہ الگ ہے عید والی قربانی کے اپنے علاقوں میں ہوتی ہے اپنے وطن میں ہوتی ہے ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش امریکہ یورپ جہاں ہر لوگ اپنے علاقے میں کرتے ہیں تو اس کی نوعیت اس کی مسئلہ لگی تو بہرحال اب آپ غسل کر لیں صفائی کر لیں اور پھر احرام کی چادریں پہن لیں اور دورا قد پڑ لیں احرام باننے سے پہلے بدن میں مردوں کے لئے عورتوں کے لئے بدن میں خجبو لگانا مصحاب ہے احرام باننے سے پہلے اللہ علیہ وسلم لگاتے تھے احرام باننے سے پہلے اب یہاں بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم نے ابھی جب نہایا ہے تو اس نہانے میں سابون استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں یا اس کے نہانے میں نہانے کے بعد سر کے بال پوچھ سکتے ہیں یا نہیں تولیے سے تولیے استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں تو اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے چونکہ ابھی جو نہانہ ہے تو احرام کی نیت کرنے سے پہلے ہیں تو احرام کی نیت کرنے سے پہلے جو گسل ہوتا ہے اس میں پابندیاں نہیں ہیں چونکہ ابھی آپ نے احرام کی نیت نہیں کی پابندیاں تو نیت کرنے کے بعد شروع ہوتی ہیں تو ابھی جو گسل کیا جائے گا اس میں آپ اپنے سابون بھی استعمال کر سکتے ہیں اور گسل کے بعد سر کے بال بھی پوچھ سکتے ہیں سکھا سکتے ہیں تولیے سے چہرہ بھی پوچھ سکتے ہیں چونکہ ابھی آپ نے نیت نہیں کری تو اس کے بعد پھر فشمو بھی لگا سکتے ہیں تو یہ جو پہلے گسل ہے اس میں پابندیاں نہیں ہیں اور جب آپ دو رکعت پڑھ کے نیت کریں گے نیت کرنے کے بعد ساری پابندیاں شروع ہوجاتی ہیں نیت کرنے کے بعد جو ہیں احرام کی پابندیاں شروع ہوجاتی ہیں احرام کی سات پابندیاں ہوتی ہیں احرام کی سات پابندیاں ہیں پہلی پابندی کیا ہے وہ مرد کیلئے سلاوہ کپڑا پہننا منع ہے پورتہ ہے پائجامہ ہے انڈرویار وغیرہ سب منع ہے احرام کی حالت میں نہیں پہنسکتے ہیں دوسری پابندی کیا ہے مرد کیلئے سر اور چہرہ ڈھاک رہا ہے یا ایسی چپل پہننا جس سے دونوں ٹکھنے یا پیر کی بیچ کی ابریب ہڈی چھپ جائے تو مرد کیلئے پیر میں بھی پابندی ہے کہ ہاں چپل نہیں پہنسکتے ہیں ہوای چپل پہنے عورت کیلئے پیر کی پابندی نہیں ہے اور عورت سر بھی ٹھاکے گی چہرہ بھی پردہ کرے گی لیکن عورت کیلئے پردہ میں یہ ہے کہ ایسے نقاب استعمال کرے اس طرح کیپ لگا کے چہرے سے کپڑا دور رہے عورت کیلئے اتنی پابندی ہوتی ہے کہ چہرے سے کپڑا نہ لگے پردہ تو کرے لیکن اس طرح پردہ کرے کہ چہرے پہ کپڑا نہ لگے اتنی پابندی ہے چپل وہ کوئی بھی پہنسکتی ہے موزے بھی پہنسکتی ہے عورت کیلئے احرام کی حالت میں پیر میں موزے پہننا یا جوتا پہننا چپل پہننا منا نہیں ہے مرد کیلئے ہے کہ ہوای چپل پہنیں دو پٹی والی تاکہ پیر کے بیچ کے ابری ہوئی ہدی کھولی رہے ہیں تیسری پابندی یہ ہے کپڑے یا بدن پر خوشبو لگانا یا خوشبو دار سابن یعنی احرام باندے سے پہلے تو آپ خوشبو استعمال کر سکتے ہیں نیت کر لیا آپ نے اب نیت کرنے کے بعد خوشبو کا استعمال بالکل منا ہو جائے گا کپڑوں میں بھی منا ہو جائے گا بدن میں بھی منا ہو جائے گا خوشبو دار سابن بھی منا ہو جائے گا خوشبو دار ٹیشو بھی استعمال کرنا جو آج کچھ بہت خوشبو دار ویب ٹیشو آتے ہیں جہاز وغیرہ میں ملتے ہیں یا اور بھی خواتین بات استعمال کرتی ہیں بچوں کو صفائی وغیرہ کے لئے تو ایسے ٹیشو ویب ٹیشو وغیرہ ان سے بھی حیطیت کرنا چاہیے ایسی طرح ٹوٹپیس وغیرہ سے بھی حیطیت کرنا چاہیے حج میں جو ہے حاجی کو اپنے ساتھ مسواق لے کے جانا چاہیے سنت مسواق جو ہے سنت ہے عام دینوں میں بھی سنت ہے حج کے دوران بھی سنت ہے تو حج میں مسواق کے سنت پر عمل کرنے کے احتیام کریں ٹوٹپیس کو چھوڑ دیں جب تک آپ احرام کی پابندی میں ہیں ٹوٹپیس استعمال نہیں کر سکتے جب آپ کا احرام کھل جائے گا پہلے تک احرام میں رہیں گے تب تک منعہ ہے تو عام سابون جو خوشبو والے ہوتے ہیں خوشبودار سابون سے بھی حیطیت کریں ٹوٹپیس سے بھی حیطیت کریں ہر وہ چیز جس میں خوشبو ملی ہے بلکہ پینے کی چیز اگر کوئی ہے جس میں خوشبو ملی ہے فلاور ہے تو اس سے بھی حیطیت کریں پینے کی چیزیں بھی خوشبو والی اس سے آپ حیطیت کریں اب آپ کہیں کہ وہاں یہ چیز مل رہی ہے یا لوگ استعمال کرتے ہیں لوگوں کو مت دیکھیں لوگ کیا کر رہے ہیں اور مولیم کی طرف سے کیا انتظام ہے تو مولیم کو اس سے مطلب نہیں ہوتا کہ آپ یعنی پابندی آپ منع کرے یہ چیز مت پیو یہ چیز مت کھو تو آپ کے لئے کھانے کی ہر چیز انتظام کرے گا پینے کی ہر چیز انتظام کرے گا اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ جب تک احرام میں حیطیت کریں احرام کھل جانے کے بعد آپ پینے میں کوئی حیطیت نہیں ہے پھر کوئی بھی چیز پی سکتے ہیں کھشبو والی بھی پی سکتے ہیں لیکن جب تک احرام کی حالت میں ہیں اس وقت تک آپ کو ہی حیطیت کرنا ہے چوتی پابندی یہ ہے کہ بدن سے بال نہیں نکال سکتے ہیں پانچوی پابندی کیا ہے نخون کاٹنا منع ہے مرد کے لئے بھی منع ہے بال نکالنا بھی مرد کے لئے بھی منع ہے چھتی پابندی یہ ہے کہ شہوت والا کوئی کام جائز نہیں ہے میہ بی بی کے درمیان کوئی بھی ایسی بات یا شہوت والی کوئی بات شہوت والی کوئی بات کرنے سے کوئی کام ایسا کر لی ہے جس سے شہوت کوالا کام ہوتا ہے تو ایسا کوئی کر لی ہے کسی نے بوسا دے دیا تو بکرا دم آ جاتا ہے احرام کی حالت میں شہوت کے ساتھ بوسا دینے سے بھی بکرا دم آ جائے گا ساتوی پابندی یہ ہے کہ خشکی کا شکار احرام کی حالت میں شکار تو نہیں ہوتا آج کر شکار کا زمانہ تو نہیں رہا البتہ یہ ہے کہ کسی بھی غیر موزی جنور کو احرام کی حالت میں نہ مارے اور حدود حرم میں درست وغیرہ ان کو نہ توڑے تو اس میں جزا لازم ہوتی ہے یہ احرام کی پابندی ہیں تو ان پابندیوں کے ساتھ آپ کو جانا ہے وہاں جب تک وہاں رہیں احرام کی حالت میں احرام کی حالت تو چند دن رہتی ہے آپ وہاں جانے کے بعد اگر عمرہ کر رہے ہیں تو عمرہ کر کے حلال ہوگا پھر جب آٹھ تاریخ کو احرام بانیں گے تو اس وقت آپ کی پابندی شروع ہوں گی آٹھ اور نو اور دس یہ تین دن ہوتے ہیں تاریخ کو کنکری کے بعد قربانی کے بعد آپ حلق یا قصر کر کے جس سے قربانی ہو قربانی کرے پھر حلق یا قصر کرے احرام کی پابندی ختم ہو جاتی ہیں تو جب تک آپ احرام کی حالت میں ہیں تو احرام کی پابندیوں میں رہنا ضروری ہے اور نیت کے ساتھ جیسے ہم نے کہا شروع میں بھی لبیک پڑھنا ضروری ہے قصر سے حج کے دوران لبیک پڑھنا ہے حضرت جبریل نے وسیعت کی تھی کہ آپﷺ کو کہیں کہ اپنے ساتھیوں سے کہو کہ ضرور ضرور سے لبیک پڑھ لیں تو مردوں کے لئے ضرور ضرور سے لبیک پڑھنا سنتے ہیں عورتوں کے لئے آہستہ سے پڑھنا سنتے ہیں لبیک قصر سے پڑھنا سنتے ہیں ہر نماز کے بعد پڑھیں اور مختلف حالات تغییر حالات کے وقت پڑھیں صبح ہو تو پڑھیں شام ہو تو پڑھیں سواری میں چڑھیں تو پڑھیں اترے تو پڑھیں تو مختلف عوقات میں قصر سے حج کو لبیک پڑھنا ہے جب لبیک پڑھتا ہے تو اس کے دائیں بائیں جتنے بھی حجر شجر ہیں تو اس کے ساتھ سب لبیک پڑھتے ہیں تو آپ جب وہاں پہنچیں گے وہاں پہنچنے کے بعد جو ہے پہلے عمرہ جو تمتو کر رہے ہیں اقیران کریں تو عمرہ کریں گے تواف کیا ساتھ چکر ہر تواف ساتھ چکر کا ہوتا ہے ساتھ چکر سے کم کوئی تواف نہیں ہوتا عمرہ کا تواف ہو حج والے عمرہ کا تواف ہو یا تواف زیارہ ہو تواف قدوم ہو نفلی تواف ہو کوئی تواف بھی ساتھ چکر سے کم نہیں ہوتا تو ہر تواف ساتھ چکر ہوتا ہے اور ہر تواف کے لئے وضوح ضروری ہے کوئی تواف بغیر وضوح کے نہیں کر سکتے کوئی تواف بغیر وضوح کے کرنا جو ہے منع ہے اگر بغیر وضوح کے کوئی تواف کرے گا تو اس کو دم دینا پڑے گا اس کو دم دینا پڑے گا تو تواف میں اگر وضوح ٹوٹ جائے تو فوراں جا کے وضوح کر کے آئے پھر اپنے تواف کی تکمل کرے سعی جو ہے یہ بغیر وضوح کے ہو جاتی ہے تواف بغیر وضوح کے نہیں ہوتا تواف بغیر وضوح کے مراد یہ ہے بغیر وضوح کرنے سے تواف پر جرمانہ آتا ہے دم لازم آتا ہے تو تواف بغیر وضوح کرنے سے جرمانہ لازم ہوتا ہے اگر آپ عمرہ کر رہے ہیں تو عمرے میں چار کام ہوتے ہیں احرام تو بان لیا اب آپ کے تواف کی سعی کے حلق قصری عمرے کے کام ہو جائیں گے اگر آپ عمرہ کر رہے ہیں قرآن کا عمرہ ہے تو اس میں سعی کے بعد حلق قصر نہیں ہوگا اب آپ جب تواف شروع کریں گے تواف کے دوران بیت اللہ آپ کے بائیں طرف ہونے ضروری ہے تواف کی حالت میں بیت اللہ کو طرف سینہ یا ابو کا نور صرف حجر اسوت کے سامنے آپ نیت کرتے ہیں آپ حجر اسوت کی طرف اپنا سینہ کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ اس کے بعد باقی جنگہ پر آپ سینہ اے پیٹ نہیں کر سکتے اگر سینہ اے پیٹ کریں گے تو آپ پر دم آ سکتا ہے وہ چکر دورانا پڑے گا اتنا حصہ دورانے ہیں وہ چکر دورانے ہیں اگر نہیں دورانے ہیں تو دم آئے گا سینہ اے پیٹ کرنا تواف کے دوران بیت اللہ کی طرف منع ہوتا ہے حجر اسوت کے سامنے جب نیت کرتے ہیں نیت کرتے ہیں پہلے نیت کرتا ہے دل میں ضروری ہے زبان سے بھی کہہ سکتے ہیں اگر یاد ہو تو پڑھ لے پھر اسلام کرتے ہیں اسلام کرنا سنت ہے ہر چکر میں اسلام ہوتا ہے اسلام حجر اسوت کے سامنے ہوتا ہے اسلام کے وقت بھی اگر حجر اسوت کے سامنے سینہ ہو جائے تو منع نہیں ہے لیکن اپنی جنگہ پر کھڑے ہوکے اسلام کرتے ہیں سینہ کریں تو اسی جنگہ پر سیدھا ہوکے چلتے ہیں رش کے موقع میں یہ مشکل ہوتا ہے تو رش کے موقع میں خالی چہرہ پھیر کے اسلام کر لیتے ہیں سات چکر تواف کے ہوتے ہیں آٹھ اسلام ہوتے ہیں پہلے تواف شروع کرنے سے پہلے ایک اسلام ہوتا ہے پھر ہر چکر کے بعد ایک اسلام ہوتا ہے تو کل آٹھ اسلام ہوتے ہیں تواف کے میں اگر آپ عمرہ کر رہے ہیں عمرہ کا تواف ہے تو تواف سے پہلے اتباع کریں اتباع یعنی اپنا دائیں دائیں کندہ کھولنا کتنے چکروں میں کھولنا ہے یہ یہ پورے سات چکروں میں کھولنا ہے اتباع سنت ہے پورے سات چکروں میں اگر کوئی اتباع کرنا بھول گیا تواف تو ہو جائے گا سنت رہ جائے گی دائیں کندہ کھولنا مرد کے لئے یہ سنت ہے اور پورے سات چکروں میں واضح لوگ سمجھتے ہیں یہ تین چکروں میں یہ غلط سمجھتے ہیں یہ تین چکروں میں رمل ہوتا ہے رمل جو اکڑ کے چلنا ہے مردوں کے لئے یہ تین چکروں میں ہوتا ہے اور اتباع پورے سات چکروں میں ہوتا ہے نیت اس طرح کرتے ہیں کہ حضورﷺ آپ کے دائیں کندے کی سید میں ہو پھر نیت کر کے پھر اسلام جب کرتے ہیں سامنے آجاتے ہیں اسلام سے فارغ ہو کر دائیں طرف مور جائیں اب ویت اللہ کو اپنے دائیں طرف لگتے ہوئے چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں تواف میں جو ہے چار باتوں کا خیال لکھنا ضروری ہوتا ہے جیسے میں نے ذکر کیا کہ وضوح تواف کرنا یہ واجب ہے بغیر وضوح کے جرمانہ آتا ہے دوسرا جیسے میں نے کہا کہ بیت اللہ آپ کے دوسرا یہ بیت اللہ آپ کے بائیں طرف ہو اور پیدل تواف کرنا آج کل جو ہے دوسری بات یہ ہے کہ پیدل تواف کرنا آج کل ایک بلائے شروع ہو گئی ہے کہ بہت سے لوگ آج کل یہ الیکٹرونک ویلچیئر اور کیا کیا اوپر گانیاں آگئی ہیں تو سوچتے ہیں چلو اسے کل نہیں یہ تو کھیل تماشا ہے تواف نہیں ہے تواف تو پیدل چل کر کیا جاتا ہے جو معذور ہے چل نہیں سکتا جو چلنے سے معذور ہے اس کے لئے گنجائش ہے اس میں کر لیں لیکن جو معذور نہیں ہیں اس کو پیدل چل کے کرنا ضروری ہے اگر تھکاوا ہے تو انتظار کرے کچھ دیر آرام کرے پھر کرے لیکن پیدل کریں اگر تھکاوا اس لئے بھی اگر اس میں کرے گا الیکٹرونک ویلچیئر پھر بھی دم آ جائے گا تو جو معذور نہیں ہیں وہ اس میں بیٹھ کے کرے گا چاہے الیکٹرونک ویلچیئر پہ یا جو آج کل اوپر گاڑی چلی ایک گول ہے تو اس میں کرے تو اس کو دم دینا پڑے گا تواف پیدل کرنا اور سعی بھی پیدل کرنا ضروری جو معذور ہے وہ سعی بھی اس میں کر سکتا ہے لیکن جو معذور نہیں ہے وہ پیدلی تواف بھی پیدل کرنا ہے سعی بھی اس کو پیدل کرنا ہے یہ تواف کا طریقہ ہے پھر تواف میں بعض لوگ جو کتابوں سے دعائیں پڑتے ہیں ہر چکر کے الیک دعا تو ہر چکر کے جو الیک دعا لکھی جاتی ہے وہ کوئی مصنون نہیں ہے بعض بزرگوں نے آسانی کے لئے لکھ دی کہ لوگوں کو دعائیں مانگا نہیں آتی تو پڑھ لیتے ہیں لیکن وہ مصنون نہیں ہیں اور ہمارے اردو دا طب کوئی کوئی اکثر تو عربی پڑھنا نہیں آتی قرآن پاک کے الفاظ سے ہی پڑھنا نہیں آتی تو ان کے لئے تو اس سے پڑھنا بیکار ہے وہ تو عربوں کے لئے لکھی گئے جن کو عربی آتی تھی یا اپنے لوگ جن کو عربی پڑھنا آتی ہے اچھی طرح سمجھتے ہیں باقی عام لوگوں کے لئے تو اس کو پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے نہ اس کے معنی سمجھ میں آتے ہیں نہ الفاظ صحیح پڑھتے ہیں کچھ لکھا ہوتا ہے کچھ پڑھتے ہیں تو اُلٹا نفسان ہوتا ہے فائدہ نہیں ہوتا اس سے تو تواف کے دوران جو ہے تیسرا کلمہ کثرت سے پڑھیں تیسرا کلمہ ثالنتا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تواف میں انسان کو شکہ ہو جاتا ہے کے ا rez постоянно تو کم کا اعتبار کرتے ہیں تب بھی کم کا اعتبار کریں گے سعی میں شک ہو جائے تب بھی کم قہتی بار کریں، ابھی یاد نہیں آرہا چھے کریں یا پانچ کریں، پانچ سمجھے آپ نے پانچ کریں، تو سعی میں بھی کم قہتی بار کریں گے، کنکر رمی مارتے ہیں تو ابھی یاد نہیں آرہا چار کنکر مارے یا پانچ کنکر مارے تو چار سمجھیں گے، باقی کو مکمل کرنا ہوگا۔ تو جب شک ہو جائے یاد نہ آئے تو پھر کم کا اعتبار کیا جاتا ہے، اور ہر تواف کے بعد دو رکعت پڑھنا واجب ہے اور دو رکعت مقامی ویران کی پیچھے پڑھنا افضل ہے لیکن ضروری نہیں ہے آپ پوری حرم میں کہیں بھی پڑھ لیں، سہی یہ باہر حرم سے نکل کے بھی باہر سہن میں پڑھ لیں تب بھی کوئی حرج نہیں ہے، تو پوری حدود حرم میں کہیں بھی آپ پڑھ سکتے ہیں دو رکعت تواف کے بعد کی جو ہیں۔ اور ہر تواف کے بعد دو رکعت پڑھنا واجب ہے، لیکن اگر کوئی اثر کے بعد تواف کر رہا ہے تو اُس کی دو رکعت مقروبت ختم ہونے بعد پڑھے گا یعنی مقریب بات پڑھے گا، سورج غروب ہونے کے بعد، سورج غروب ہونے سے پہلے نہیں پڑھ سکتا، تو مقروبت میں جو ہیں تواف کی دو رکعت جو واجب ہے وہ تواف ہے وہ نہیں پڑھ سکتا ہے۔ اب اِس کے بعد سعی کرنا ہے، ساتھ چکڑ لگانا صفہ مواقع، اگر یاد ہی جانے سے پہلے تو اِنَّ الصَّفَعُ الْمَرْوَتَ مِن شَعَالِ الْإِلَٰہِ اِس کو پڑھ لیں، اور سعی تواف کی بات کرنا جتنا جلدی کریں اچھا ہے، اگر کوئی تھکا ہوا ہے یا کچھ دیر کھانا پینا چاہتا ہے کسی وجہ سے تو کھانے پی لیں پھر سعی شروع کریں تو کوئی حراج نہیں ہے، تھکا ہوا ہے کچھ دیر آرام کر کے بیٹھے آدھا گ دبیل جا کر سعی کر لیے تو اس میں کوئی حراج نہیں ہے سعی کی ابتدا نوی سلام سے ہوتی ہے یعنی ایک سعی شروع کرنے سے پہلے مطاف میں کیا جاتا ہے حضرت الرسولﷺ کی سید میں نوی سلام ہوتا ہے تو سعی کا ہوتا ہے وہ تو اسلام کر کے پھر صفہ مروع کے طرف جاتا ہے پھر صفہ مروع پہ کوئی سلام نہیں ہوتا اسلام دو مطاف میں ہوتا ہے، سعی کا نوی سلام ہوتا ہے صفہ پہ چھرنے کے بعد دعا ہے اللہ اکبر، اللہ اکبر تین مرتبہ کہنا، لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، پھر لا الہ الا اللہ، احنا ولا شریک اللہ، لَهُمْ مُرْكُورُ، حَمْدُهُ وَعَلَىٰ فِي الْشَّيْءِ الْقَدِيرِ، لَا إِلَيْهِ لِلّٰهُ وَحْدَىٰ، أَنْ جَزَىٰ وَعَدَىٰ، وَنَصَرَىٰ عَبْدَىٰ، وَحَذَىٰ وَحَذَىٰ بَوَحَدَىٰ، ان سب کو تین دفعہ پڑ اُس سے راہ تھوڑا کے صنع یہ اعمال کرنا ہے، صفحہ میں بھی اور مروعہ میں بھی، وہ ہے سلام نہیں ہوتا اور صفحہ سے مروعہ تک ایک چکر، پھر مروعہ سے صفحہ تک یہ دوسرے چکر ہوتا ہے، سات چکر، میں نے جیسے پہلے ذکر کیا کہ صفحہ مروعہ میں وضوع بہتر ہے، سنت ہے اگر کسی کا ٹوٹ گیا ہے، نہیں کر سکا تو تب بھی صفحہ مکمل کر لے، اس بھی کوئی جرمانہ، کوئی دم نہیں آتا کوئی کر لے تو اچھی بات ہے کہ وضوع نہیں کر سکا تو کوئی بات نہیں ہے صحیح میں تین چیزیں ضروری ہوتی ہیں، ایک تو یہ ہے کہ صفحہ سے شروع کریں اور مروعہ پہ ختم کریں، مروعہ سے صحیح شروع نہیں کر سکتے صحیح کوئی صفحہ سے شروع کرتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ صفحہ اور مروعہ کے درمیان پوری مسافت پوری کرنا، بعض لوگ کیا کرتے ہیں کہ آخری جہاں ختم ہوتا ہے پہلے چکر جہاں ختم ہوتا ہے، ختم ہونے کی جنگہ سے پہلی مل جاتے ہیں، اس سے بھی جرمانہ آتا ہے، پورا آخر تک جا کے پھر مل کے آنا ہوتا ہے یعنی جہاں حدود ہیں، اوپر لکھا رہتا ہے صفحہ بھی حدود ہے، مروعہ سے صفحہ آ رہے ہیں تو صفحہ سے جہاں حدود ہے وہاں سے آگے جا کے مل کے آنا ہوتا ہے، تاکہ کوئی جنگہ رہ نہ جائے اور جس طرح تواب نے بتایا کہ پیدل کرنا ضروری ہے، سعی میں بھی پیدل کرنا ضروری ہے، جو معذور ہے وہ کر سکتا ہے اور جو نارمل ویلچیئر ہے، کسی کے ساتھ کوئی ضعیف ہے اور نارمل دھکا دینے والی جو پہلی پرانی ویلچیئر ہوتی تھی، اس کے والدہ ساتھ میں ہیں، اُن کو دھکا دے کے چلا رہا ہے، وہ خود بھی اپنی سعی کر لے تو اس کی بھی ہو جائے گی، اُن کی بھی ہو جائے گی، دونوں کی ہو جائے گی لیکن الیکٹرونک ویلچیئر پہ دونوں کی نہیں ہو سکتی، نارمل والی پہ ہو جائے گی چونکہ یہ چل کے پیدل کر رہا ہے وہ بیٹھے ہوئے ہیں، الیکٹرونک پہ دونوں بیٹھیں گے تو چونکہ یہ معذور نہیں اس پہ دم آ جائے گا، تو یہ مسئلہ ہے اگر الیکٹرونک پہ کرانا پڑے تو پہلے اپنی پیدل کر کے فاری ہو جائے، پھر والد وغیرہ یا جو بھی معذور ہیں ساتھ اُن کو کرائیں گے عمرے کے بعد حلق یا قصر ہوتا ہے، حلق یا قصر تمتوں کا اگر عمرہ ہے تو کرنا پڑے گا، حلق قیران میں تو حلق قصر نہیں ہوگا، قیران میں رہے گا افراد میں تو چونکہ افراد میں عمرہ ہی نہیں ہے، حلق کا مطلب ہوتا ہے سر کے پورے بال مڑانا، یہ سنت ہے اگر کوئی قصر کہہ رہا ہے، قصر میں شرطی ہوتی ہے ایک پورے بال کٹنا ضروری ہے ایک انچ سے زیادہ بال کٹ جائیں سر کے مردوں کے لئے، عورت کے لئے بھی پورے بال پکڑ کے دو انچ کٹ جانا چاہیے اور پورے بال پکڑ کے سارے بال، بعض عورتیں لڈ پکڑ کے کٹ لیتی ہیں، ان پر بھی دم آتا ہے، نہیں لڈ پکڑ کے کٹنے سے انام سے نہیں نکلتا ہے انسان، پورے بال سر کے پورے پکڑ کے اس کو دو انچ کٹنا ہوگا عورتوں کو۔ اور مردوں کو بھی اسی طرح بلیڈ سے سنت ہے، اگر مشین سے کریں کچھی مرد کے لئے استعمال کرنا صحیح نہیں ہے، کچھی عورتوں کے لئے ہے، بلیڈ سے کریں یا اگر مشین سے کریں تو مشین سے ایک انچ بال پورے برابر کر لیں اور اگر بال چھوٹے ہیں کسی کے، ابھی قریب عمرہ کیا ہے، بال چھوٹے ہیں تو پھر اس کے لئے حلق لازم ہے، جب چھوٹے بال ہوں تو پھر قصر جائز نہیں ہوتا ہے مردوں کے لئے پھر حلق لازم ہوتا ہے چھوٹے بالوں پر۔ اور صحیح ترتیب کیا ہے کہ جس طرح حلق پورے سرکا ہوتا ہے قصر بھی پورے سرکا کیا جائے یہی صحیح ترتیب ہے، ایک انچ ایک پور کٹنا ضروری ہے پورے سرکا یہ صحیح ترتیب ہے، باقی دم کتنے میں آتا ہے وہ تفصیل ایک الگ مسئلہ ہے، لیکن ایک انچ سے اگر کم کٹے گا تب بھی دم آئے گا انسان حلال نہیں ہوگا، ایک پور سے زیادہ کٹنا چاہیے، اگر آپ تمتو کر رہے ہیں حلق قصر کر لیا تو آپ کے احرام ختم ہو گیا، اب تمت تمتو والےحج کاعرام حرم سے باندھ payoff کے بنا جاتے، امرے کے بعد صبح بھی باندھا سکتے ہیں، زروری اتنا انتظار کریں، اگر احرام صافصف landfill آپ نے Kafka بھ کے العام س Zombieٌ اور اگر تمتو نہیں کر رہے ہیں کہان کر رہے ہیں تو حلق قصر نی اسے حراما نئت کی پہلے اور ہے جی راتھب کے بائلنے کسی بھی نہیں جا لیا ہے کہ جے لا ضرور کیں یہ کام Doncs LGB اور قرآن میں قدم نہیں ہوتا ہے، کالی عمرہ ہوتا ہے۔ توفیق قدم افراد میں ہوتا ہے اور قرآن میں بھی ہوتا ہے۔ قرآن میں اُس کا وقت عمرے کے بعد ہوتا ہے، عمرے کے بعد توفیق قدم ہوتا ہے قرآن میں۔ اب آپ نے دوبارہ حج کا احرام مان لیا اور پھر اب آپ مینا جائیں گے۔ مینا جانا ہے آپ کو پہلے دن کی پانچ نمازیں پڑھنا ہے صبح صادق کے بعد جو ہے، یعنی آٹھ تاریخ کو مینا پہنچنا ہے، زہر سے پہلے پہلے پہنچ جانا چاہیے۔ پانچ نمازیں مینا میں پڑھنا سنت ہیں۔ زہر، اصر، مغرب، عیشہ اور فجر، ہر نماز اپنے وقت میں پڑھ جائے گی۔ البتہ جو مسافر ہیں وہ قصر کریں گے۔ اور جو مقیم ہیں، مکہ کے رہنے والے ہیں تو ان کو حج میں چار رکعت پڑھنا ہے۔ ان کو حج میں مسافر نہیں۔ تو قصر کا تعلق سفر سے ہے، حج سے نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر حجی کو دو رکعت پڑھنا نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اگر جو مسافر نہیں ہے وہ دو رکعت پڑھے گا تو اس کی نماز ہی نہیں ہوگی۔ جب نماز نہیں ہوگی تو اس کا حج بھی خراب ہوگا۔ تو جو مسافر ہیں وہ دو رکعت پڑھے گا اور جو مقیم ہیں وہ چار پڑھے گا۔ اگر امام مسافر ہے، مقتدی مقیم ہیں تو مقتدی کو بھی امام کے سلام پھننے کے بعد اپنی دو رکعت پوری کرنا پڑتی ہے۔ اگر امام مسافر ہے اور مقتدی مقیم ہے۔ تو کسر کا تعلق سفر سے ہے۔ تو اس لئے جو ریاض سے، دمام سے یا باہر سے آتے ہیں، ان سب کے کسر ہوتا ہے۔ امومن مقیم کون ہوتا ہے؟ ایسے مکہ کے رہنے والے مقیم ہیں یا جن کو آکے پندرہ دن ہو جائیں۔ جن کے حج کے دن پندرہ دن ہو جائیں۔ جو باہر سے لوگ آتے ہیں، انڈیا، پاکستان، دوسرے علاقوں سے آتے ہیں۔ ان سے پہلے آ جاتے ہیں، ان کو پندرہ دن جب ہو جاتے ہیں یہاں مکہ میں اور حج کے دن ملا کر، تو ان کو مقیم بن جاتے ہیں، چار لکھت پڑھنا لازم ہو جاتا ہے ان پر۔ تو پورے حج میں چار پڑھیں گے، مینہ میں بھی، مذہلفہ میں بھی، عرفات میں بھی سب جنگہ چار پڑھیں گے۔ اللہ کے نبیﷺ مسافر تھے مدینہ سے آئے تھے دو پڑھائی تھی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب اپنے زمانے میں مقیم بن گئے، مکہ میں شادی کر لی اُنہی نے، تو اُنہی نے پورے حج میں چار پڑھائیں سب کو۔ کیوں کہ بتانے کے لئے کہ اس کا تعلق سفر سے ہے، حج سے نہیں ہے، سارے حاجیوں کو، تو اُنہی نے مقیم بن گئے سب کو چار پڑھائیں اُنہی نے، تمام حاجیوں نے چار پڑھائیں اُن کی پیچھے۔ تو اس لئے قصر کا تعلق سفر سے ہے، حج سے نہیں ہے۔ آٹھ تاریخ کو آپ نے پانچ نمازیں پڑھ لیں منہ کے اندر، ہر نماز کے بعد آپ لبیق پڑھتے رہیں، یہ فضیلت کا دن ہے، اپنے اوقات کو عبادت میں گزاریں، قصر سے لبیق پڑھیں، قرآن کی تلاوت کریں، استغفار کریں، دروش شریف پڑھیں، ذکر میں، استغفار میں، دعا میں اپنی اوقات کو گزاریں، تلاوت میں اپنے اوقات کو گزاریں، تلبیہ پڑھنے میں اپنے اوقات کو گزاریں۔ تو پانچ نمازیں پڑھ لیں، زہر، عصر، مغنی، وشہ، نو تاریخ کی فجر، نو تاریخ کی فجر جب ہو جائے تو نو تاریخ کی فجر سے ایک اور عبادت شروع ہو جاتی ہے تکبیرِ تشریق، ہر نماز کے بعد تکبیرِ تشریق کہنا واجب ہو جاتا ہے۔ اب نو تاریخ کو پہلے تکبیرِ تشریق کہے گا پھر لبیق پڑھے گا ہر نماز کے بعد، یہ تکبیرِ تشریق کو تیرہ کی عصر تک چلتی ہے، البدہ لبیق آپ کی دس تاریخ کو ختم ہو جاتی ہے، پہلی کنکہ پر آپ کی لبیق ختم ہو جائے گی، دس تاریخ کو۔ تو نو تاریخ کو جب سورج نکل آئے پھر آپ عرفات روانہ ہوتے ہیں، آج کل کیونکہ سہولتیں ہیں، سواری آسان ہیں، ٹرین بھی ہے، لوگ جلدی پہو جاتے ہیں عرفات کو، بعض مولویوں تو اور جلدی لے جاتے ہیں، رات میں ہی لے جاتے ہیں، رات میں اگر کوئی چلا جائے تو اس پر دم نہیں آتا، اگرچہ سنت کی خرائف ہے لیکن انتظامی لحاظ سے اگر کوئی مجبوری ہے تو چلا جائے چونکہ اکیلے خود تو جا نہیں سکتا، وہ خیمے وہاں پتہ نہیں ہوتے، کس کا خیمہ کہاں ہے، مولویوں اگر رات میں بھی لے جائے تو جانے کی گنجائش ہے، اگرچہ سنت سورج نکلنے کے بعد ہے لیکن رات میں جانے سے کوئی دم وغیرہ نہیں آتا، عرفات کا جو وقت شروع ہوتا ہے وہ ظہر سے ہوتا ہے۔ اگر آپ صبح پہنچ گئے دیم میں جلدی پہنچ گئے تو جا کے جو دعا وغیرہ کرنا کر لیں اور باقی آرام کر لیں، چونکہ اصل عبادت کا اور دعا کا وقت ظہر با شروع ہوگا، قبولیتِ دعا کا جو وقت اصل ہے عرفات کا وہ ظہر سے شروع ہوگا، عرفات کا اصل وقت ظہر سے لے کے مغرب کے درمیان ہے یہ قبولیتِ دعا کا وقت ہے، آپﷺ نے ظہر پڑھی اور اثر پڑھی اور مغرب تک آپﷺ دعا میں مصروف رہے ہیں، یعنی پانچ گھنٹے کے قریب آپﷺ نے دعا کی، عرفات کے میدان میں کثرت سے چوتھا کلمہ پڑھنا ہے اور لبیق پڑھنا ہے اور دعا کرنا ہے یہ دعا کا مقام ہے، کھڑے ہوکر قبلہ نوکبر جو دعا کرسکے اور بہتر ہے اور بیٹھ کے دعا کرے جتنا موقع ہو اتنی اسان کثرت سے دعا مانگ لے کہ مانگنے کا دن ہے یہ، وہاں مغرب تک رہنا ضروری ہے، مغرب سے پہلے اگر کوئی نکل جائے گا تو اس پر بکرا دوائے گا، سورج غروب ہونے کے بعد وہاں سے نکل سکتا ہے، یعنی مغرب کے نماز نہیں پڑھنا وہاں، انتظار کرنا سورج غروب ہونے کا جب سورج ڈوب جائے تو پھر وہاں سے نکلنا ہے، مغرب عیشہ جا کے مضلفہ میں پڑھنا ہے عیشہ کے وقت میں، مغرب عیشہ کو عیشہ کے وقت میں مضلفہ کے میدان میں پڑھنا ہے تو عرفات میں سورج ڈوبنے کے انتظار کرنا ہے لیکن سورج ڈوبنے تک انتظار کر کے سورج ڈوبنے کے بعد وہاں سے نکلیں گے لیکن مغرب کے ن وہاں سے نکل کے جائیں گے مضلفہ، مضلفہ میں فجر تک رہنا ہے فجر کے نماز مضلفہ میں پڑھنا ضروری ہے فجر کے نماز تو ہم نے کہا جو مسافر ہیں وہ تو قصر کریں گے جو مقیم ہیں عرفات میں بھی چار پڑھیں گے اور مضلفہ میں بھی چار پڑھیں گے مسجد نمیرہ میں بھی اگر کوئی پڑھ لائے تو چار پڑھے وہ امام زہر پڑھے گا دو رکعت پہ سلام پھیڑ دے آپ کھڑے ہوئے کے اپنی دو رکعت پوری کر لیں اُن کی اثر شروع ہوتے ہوتے آپ کی دو رکعت پوری ہو جائیں مختصر کریں دو رکعت کیونکہ وہ سلام پھیننے کے بعد پھر اقامت کہتے ہیں پھر اقامت کے بعد پھر اثر کے نماز پڑھتے ہیں تو اقامت کے دوران آپ کی ایک رکعت آرام سے ہو جائے گی تو آپ کو جو مقیم ہے اُس کو اپنی نماز پوری کرنا ہے چار رکعت پڑھنا ہے اگر مقیم دو پڑھے گا تو اُس کی نماز نہیں ہوگی عرفات کی ایک اہم تسبیح ہے جو قبلہ رخو کر پڑھنی ہے ذوال سے غرب کے درمیان اُس میں تین چیزیں پڑھے آتی ہیں پہلی چیز سو دفعہ چوتھا کلمہ دوسری چیز سو دفعہ سوری اخلاص تیسری چیز سو دفعہ درود ابراہیمی آخر میں اُس میں ایک اضافہ کرتے ہیں وَعَلَيْنَا مَعَهُمْ یعنی اِنَّكَ حَمِیدٌ مَّجِيدٌ وَعَلَيْنَا مَعَهُمْ اِس طرح پڑھتے ہیں اِس طرح پڑھتے ہیں اِن فرشتوں تم گواہ رہو کہ میں اِس کی گناہوں کو بخش دیا، اگر یہ سارے عارفات والوں کے حق میں سفارش کرے گا تو میں اِس کی سفارش کو قبول کروں گا، تو ایک فضیلت والی دعا ہے، اگر آپ رات مضلیفہ میں قیام کریں اِس کو اللہ موقع دے کوئی تحجد کے دورکات پڑھ لے تو بہت ہی قیمت ہے، فضیلت کے رات ہے اور مضلیفہ میں مستحب یہ ہے کہ آپ کنکریہ چل لیں، کنکریہ جو ہے چنہ کے دانے کے برابر ہوگی سات کنکریہ چنہ سنت ہے، آج کل محلم بھی کنکریہ دیتے ہیں بہت سے، حکومت کے طرف سے انتظام ہوتا ہے تو اس کو بھی استعمال کیا جا سکتی ہے وہ کنکریہ بھی، اگر آپ مضلیفہ میں چنہیں تو اور بہتر ہیں وہ افضل ہیں اگر پورے چار دن کی ستار کنکریہ چنہیں تو اور بہتر ہیں، ورنہ سات کنکریہ چنہ سنت ہے اُس دن وہاں پہلے دن کی، کیونکہ پہلے دن صرف بڑے کیرمی ہوتی ہے، اس کے سات کنکریہ ہوتی ہیں باقی دس تاریخ کو بڑے کیرمی ہوگی سات کنکریہ پھر گیارہ بارہ کو زہر بات سے رمی ہوتی ہے تینوں کی چھوٹے کے درمیان اور بڑے کو جوہر بارہ کو، یہ ضروری ہے گیارہ کو بھی بارہ کو بھی زہر بات تیرہ کیرمی اختیاری ہے آپ کو، اگر آپ رکھ کے تیرہ کیرمی کر کے آنا چاہتے ہیں تو افضل ہیں اور اگر آپ بارہ کے زہر بات رمی کر کے نکل جانا چاہتے تو اُس کے دن جائے شریف جاکی کو ویدائی طواب کر کے چلے جائے تو مذہلحفہ کے دن جو ہے، مذہلحفہ کے دسویں تاریخ کو، اُس دن پہلا کام تو فجری کے نماز آپ مذہلحفہ میں پڑی ہے اور پھر فجری کے نماز کے بعد بھی دعا قبول ہوتی ہے، قبلہ نکھو کر کھڑے ہو کر دعا قبول ہوتی ہے کچھ جیر دعا کرنے، سورج نکلنے سے کچھ جیر پہلے پھر وہاں سے روانہ ہو جائے اور باقی اگر خواتین ہیں اور گروب جا رہا ہے بچے ہیں، گروب کے ساتھ مینہ پہنچ گئی تو اُس میں اُن پر دم نہیں آگئے لیکن مرد حضرات کو رکھنا بڑے گا، مرد حضرات رکھ کے فجر پڑھ کے پھر جائیں مینہ پہنچنے کے بعد پہلا کام ہوتا ہے رمی کرنا، بڑے جمرے کی، آخری والا جو ہوتا ہے وہ بڑا ہے، اُس کو سات کنکر ماننا ہے اور جو جا سکتا ہے اُس کو خود جا کے ماننا ہے، جو معذور ہے جا بھی نہیں سکتا ہے، گلچیر سے بھی نہیں آ سکتا ہے، اُس کی طرف سے وکیل بن کے مان سکتے ہیں جو جا سکتا ہے اُس کو خود جا کے ماننا ضروری ہے، سات کنکر ماننا ہے، عورتوں کو بھی خود جانا ہے، مردوں کو بھی خود جانا ہے جو معذور نہیں ہیں پہلے دن کے رمی جلدی شروع جاتی ہے، دوسری اور تیسری دن میں زہر بات شروع ہوتی ہے، پہلے دن صبح صبرے شروع ہوتی ہے سورج نکلنے بعد بہتر ہے، پورے آفتاب کے بعد اور زہر تک مسئلون وقت ہے، پھر زہر سے مغرب تک جائز ہے کوئی کراہت نہیں ہے مغربات بھی رمی ہوجاتی ہے لیکن کراہت کے ساتھ مکروہ ہوتی ہے تو اس سے کوش fought کریں کہ زہر سے پہلے کہنے پہلے تو اور اچھی بات ہے نہ مغرب تک کر لیں تو کوئی سوڑ نہیں ہے اگر کسی وجہ سے مشبوری ہو گئی نہیں کر سکتا تو مغربات بھی رمیہ ہو جاتی ہے ۔ مغربات بھی رمیہ ہوجاتی ہے کراہت کے ساتھ لیکن جو معذور خواتین ہو، تو ان کے لیے کراہت نہیں للتی ہے کنکریوں کا دھونا کوئی ضروری نہیں ہوتا، کوئی دھونا چاہے دھولے کوئی حراج نہیں ہے لیکن صحابہ سے ممکن نہیں ہے دھونا اس کا۔ البتہ یہ ہے کہ دھونا اس لئے پہلے ہوتا تھا کہ پہلے زمانے میں جنور سب کے ساتھ ہوتے تھے، اُٹھ میں آج کل نہیں آتے تھے لوگ اُٹھ پے، خچھر پے، گذے پے، پشاپ وغیرہ کرتے تھے۔ اُس کی وجہ سے چونکہ کنکر چونے اکثر کہیں گندگی کہیں کچھ ہوتا تھا اُس وجہ سے دھولے جاتے تھے، آج کل تو ایسا ہوتا نہیں ہے۔ کنکری کے بارے میں جیسے میں نے کہا کہ اگر شک ہو جائے کہ کنکری اندر گئی چونکہ کنکری کا ہوس کے اندر گرنے ضروری ہے، آپ قریب جائیں اور ہوس کے اندر ماریں۔ دور سے ماریں گے باہر گر گئی تو آپ کی کنکری نہیں ہو گئی ہے، اگر آپ کی چار کنکری باہر گر گئی تو آپ کو دم دینا پڑا جائے گا، اُس لئے قریب جائیں اور ہوس کے اندر آپ کی کنکری کا جانا لازم ہے۔ سنتی ہے کہ ہاتھ اٹھا کر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کے مالیں، رغمن لشیطان، وریدر لرحمان بھی کہیں اور اچھی بات ہے، یعنی دعا پڑ لیں اللہم جعلو حج مبرورا، وذنب مفورا، وسعی مشکورا، اگر یادے اُنہ خالی بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کے مالیں تب بھی قاسم ہے۔ اور جیسے میں نے کہا کہ رمی خود کرنا ضروری ہے، اب رمی کے بعد قربانی ہے، تمام تو قیران والوں کے قربانی ضروری ہے، افراد والے کے بات، صاحب اگر افراد والے کرنا چاہے تو سنت پہ ہمارے تو وہ بھی کر سکتے ہیں، تمام تو قیران والے اپنی ترتیب سے قربانی کریں گے، پھر قربانی کے بعد حلق اور قصر ہوگا۔ پھر اُس کے بعد سر کے بال مڑانا ہے، اُس دن تو سب کو سر کے بال مڑانا چاہیے، جن کے بال بڑے ہو وہ بھی قصر نہ کریں، سنت حج کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت یہ ہے کہ بالوں کو حلق کیا جائے، اِسی کو اللہ کے نبی نے پسند کیا، قصر کو اگرچہ آپ ایک پور کٹوا لیں، بشین سے کٹوا لیں تب بھی اللہ کے نبی نے پسند نہیں کیا اِس کو۔ تو کوشش کریں کہ سنت پر عمل کریں سارے بال حلق کریں، جن کے بال چھوٹے ہیں اُن کو تو حلق کرنا ہی ضروری ہے، وہ تو قصر کریں گے تو دم دینا پڑے گا اُن کو حلال بھی نہیں ہوں گے، بیوی بھی اُن کی حرام رہے گی اُن کا۔ جن کے بال بڑے ہیں وہ بھی اُس دن اپنے بالوں کو اللہ کے لئے قربان کر دیں، اپنے بالوں کو اللہ کے لئے قربان کر دیں۔ تو جب حلق قصر کر لیا تو آپ حلال ہو گئے، اب جب نہائیں گے اِس کے بعد تو سابون بھی استعمال کر سکتے ہیں، سب کر سکتے ہیں، ساری پابندی ہیں آپ کے لئے ختم ہو، ایک پابندی رہ جاتی ہے کہ امیہ بیوی علی شہوت والا کام باقی ہے، چونکہ اب توفیق زیارت ایک فرض باقی ہے، توفیق زیارت کے جو فرض ہے وہ باقی ہے، یہ حج کا تیسرا فرض ہے۔ یہ دس تاریخ کو اِس کا وقت شروع ہوتا ہے اور بارہ کے ظہر سے پہلے کر لینا چاہیے، بارہ کے ظہر جو کرنے جائے گا تو غروب پر اُس پر بکرا دم آ جاتا ہے۔ تو اِس لئے دس کو کرنے تو بہتر ہے، توفیق زیارت فرض ہے یہ رات میں بھی کیا جا سکتا ہے، کوئی رات میں جا کے کر لے تو رات میں بھی اِس کا تواف ہو جائے گا۔ تو توافِ زیارہ دس تاریخ کو افضل ہے اور گیارہ کو بھی آپ کر سکتے ہیں، بارہ کے صبح تک ظہر سے پہلے پہلے تک کر لینا چاہیے۔ بارہ کے ظہر بعد جو بھی کرے گا اُس پہ غروب پر سورج جبنے پر بکرا دم آ جائے گا۔ اور طبقہ تو قرآن میں سب میں ایک حج کی صحیح باقی ہوتی ہے، تو اُس کی حج کی صحیح اُمرہ پہلے کر لیں، اُمرہ کی صحیح تو ہوگی وہ تو الگ ہے۔ اور حج کی ایک صحیح ہے وہ ابھی توافِ زیارہ کے بعد وہ حج کی صحیح کرنا ہے، توافِ زیارہ کے بعد وہ حج کی صحیح کر لینا ہے۔ البتہ قدوم میں باز لوگ، افراد میں باز لوگ توافِ قدوم کے بعد کر لیتے ہیں، اگر توافِ قدوم کس نے کیا ہے تو قدوم کے بعد صحیح حج کی نیت سے کر لی، اُمرہ کی نیت سے نہیں، اِس نیت سے کہ ہم حج کی صحیح پہلے کر رہے ہیں تو وہ کافی ہو گئی ہے۔ حج کی ایک صحیح ہوتی ہے افراد میں اُمرہ تو ہوتا نہیں وہ پہلے کر لی تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، تو یہ حج کی صحیح بھی واجب ہے اور کرنا ضروری ہے۔ بس اِس دن جو حج کی صحیح ہوگی احرام کی چادروں میں نہیں ہوگی چونکہ آپ حلق کر کے حلال ہو چکے ہیں، آپ کا تواف بھی سادھے کپڑے میں ہوگا، آپ کی حج کی صحیح ہوگی، البتہ کوئی احرام کی چادر پہنے والا کر لے تواف تو منع نہیں ہے لیکن احرام سے نکل چکے ہیں چونکہ حلق کر چکا۔ اور صحیح بھی سادھے کپڑے میں ہوگی ہے، اِس کے لئے احرام کی چادریں نہیں ہوتی ہیں چونکہ یہ حج کی صحیح ہوتی ہے اور اُمرہ کی صحیح نہیں ہوتی ہے۔ اور حج سے پہلے کرنے کے شرائط ہیں جیسے میں نے افراد کا ذکر کیا ہے مزید بھی قیام وغیرہ میں اُس کی تفصیلات ہیں، بات میں اگر سوالات آئیں گے تو انشاء اللہ اُس کی تفصیل بھی بتا دی آئے گی۔ اب گیارویں تاریخ کو حج کا چوتھا دن شروع ہوتا ہے، اُس دن زوال کے بعد یعنی ظہر کے بعد رمی ہوگی۔ گیارویں وارویں کو تینوں کے رمی ہوتی ہے، پہلے چھوٹے کے پھر درمیانے کے پھر بڑے کی، گیارویں وارویں کو تینوں کے رمی ہوتی ہے، پہلے چھوٹا پھر درمیانہ پھر بڑا۔ بارویں کو بھی تینوں کے رمی ہوتی ہے، پہلے چھوٹا پھر درمیانہ پھر بڑا۔ ہر ایک کو سات کنکر مانا ہے، جب جاتے ہیں پہلے چھوٹا پڑتا ہے اُس کو سات کنکر ماریں گے، پھر درمیانے کو سات کنکر، پھر بڑے والے کو سات کنکر، بارویں کو بھی زہر کے بعد اِسی ترتیب سے رمی کرنا ہے۔ زہر کے بعد پہلے چھوٹے کو سات کنکر، پھر درمیانے کو پھر بڑے کو، ہر ایک کو بسم اللہ اللہ اکبر جیسے بتایا اُسی ترتیب سے رمی کرنا ہے۔ اب بارویں کو جو ہے، آپ کو اختیار ہیں، تیرُوچے کی رمی کرنے کے مطابق اللہ کی نبیﷺ تیرُوچے کی رمی کر کے گئے تھے، تو آپ رُک کے تیرُوچے کی رمی کر کے جانا چاہیں تو بہتر ہے بارویں کو جانا چاہتے ہیں، تو بارویں کو بھی رمی کر کے ودائی طواف کیا دے سکتے ہیں، ذر طواف其 پر واجیب ہوتا ہے تو کر کے بڑے گاے سکتے ہیں۔ بارویں کا ودائی طواف آف عیٰوں پر عواجب ہوتا ہے۔ جو حلی ہیں جدے والے جیسے انفر واضح بھی نہیں ہیں لیکن سنتیں بھی کل لیں تو بہتر ہیں تو اس طرح حج کے اہم اعمال مکمل ہو جاتے ہیں اور حج کی ترطیب مکمل ہو گئی ہے اب باقی انشاءاللہ جو سوالات ہوں گے اس کے جوابات دے بھی جائیں حج کے سوال جواب کا سیشن تو ایک سپرٹ کریں گے تو اس کا تھوڑا زیادہ وقت کا تآیون ہو جائے اس ہفتے میں کیوں کہ پھر دمام والوں کی بھی نماز کا وقت ہو جائے گا آہ تو آئندہ انشاءاللہ ہفتے کو رکھ لیتے ہیں ایسے پہلے رکھ سکتے ہیں مصحبؒ اس ہفتے میں درمیان میں کیوں کہ وہ اور بھی مصرات کے بھی سیشن رکھ رہے ہیں درمیان میں نہیں جمعرات کو یا جمعہ یا تین دنوں میں سے کوئی دن رکھنے گا لیکن یہ جمعہ جمعہ تو پھر مل سفر میں ہوں گے لیکن پھر بھی ہو سکتا ہے آئندہ ہفتے ہیں یا رضا مناسب ہے آئندہ ہفتے جو ہیں آئندہ ہفتے ابھی تو ٹائم ہے نا کافی ہے ابھی تو قادر بھی باقی ہے ابھی تو ٹائم ہے بھی کافی ہے اچھا مصنف دو تین سوالات تھے اگر اجازت ہو دس پندرہ منٹ کے سوال کرلوں جو لوگوں نے پڑھائیں مصنف ایک تو سوال یہ تھا کہ اگر کوئی شخص لبیق پڑھنا بھول گیا اور میقات سے نکل گیا یعنی جہاز سے پڑھتے ہوئے تو پھر ایسی صورت میں اس کے لیے کیا مسئلہ ہوگا یا تو واپس میقات آئے اور جا کے وہاں لبیق پڑھ کے آئے تو پھر دم اس کا معاف ہو جائے گا اگر واپس میقات نہیں جاتا تو لبیق تو پڑھنا پڑے گی اس کو لبیق پڑھ کے بھی رہے ایک بکرہ دم دینا پڑے گا لبیق عمرہ کے حرام میں بھی ضروری ہے حج کے حرام میں بھی ہے بہت سے لوگ عمرہ کرتے ہیں تو لبیق پڑھتے ہی نہیں چاندوں پر دم آتا تو انکو بتا ہی نہیں ہے دم لازم ہو گیا نیت کے ساتھ لبیق ضروری ہوتی ہے موزف από ایک بات ایک عام امیمی طور پر لوگوں میں رہتا ہے کہ لبیق کا حج فراد صف جدہ والے یا میں am a consecutive ان کے لئے لازم ہیں یہ حج کریں تو ان کے لئے الحج کے لوگوں میں کوئی کرتے ہیں، угلی بات کا امیقات کے بہتر wind ماں تک تو پھر ابھی لبیق کا لبیق برывают اگر کسی نے عید کے بعد چاند دیکھنے کے بعد عمرہ کر لیا ہے تو پھر وہ اس کا تمتو ہی ہوگا، پھر وہ تمتو ہی کرنا پڑے گا وہ قیلام بھی نہیں کر پائے گا اور وہ افراد بھی نہیں کر سکتا ہے اور تو مصنف وہ پھر یہ عمرہ حج کے عمرے میں شامل ہو جائے گا وہ ڈائریکٹ حج کو جا سکتا ہے پھر یہ یہ حج کے عمرے میں شامل ہو سکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ جب حج کو جائے تو دوبارہ عمرہ کریں وہ بہتر ہے کیونکہ اس میں سنون طریقہ یہ ہے کہ آپ تمتو کے عمرے کے بعد واپس نہ جائیں اور اس درمیان میں خدا نخواستہ وہ اپنے بچوں کو ڈراؤپ کرنے وطنِ اصلی چلا گیا تو پھر ایسی صورت میں وہ تمتو ختم ہو جائے گا اگر عمرے کے بعد کوئی وطنِ اصلی چلے جائے تو اس کا عمرہ ختم ہو جاتا ہے اپنے وطن پاکستان کا ہے تو وہاں چلا گیا انڈیا کا تو وہاں چلا گیا عمرہ کر کے وہاں کوئی چلا گیا تو پھر اس کا عمرہ ختم ہو جاتا ہے پھر وہ نئے سفر شروع ہو گا اس کا پھر مصنف اگر یہ دورانِ تواف نماز کا وقت آ جائے تو پھر ہمارا جو رخ ہے وہ تو قبلے کی طرف ہو جائے گا دورانِ تواف جب آپ کا نماز کا وقت آ جائے تو آپ تو تواف سے نکل گئے آپ قبلے کی طرف رخ ہو گیا ہے تو اس لئے جب دوبارہ شروع کریں گے تو اگر بہتر یہ ہوتا ہے کہ آزان سے پہلے آپ حجرِ اسود پہ چکر مکمل کر کے باہر نکل جائیں نماز پڑھیں نماز پڑھیں اور پھر بات بیلے لیکن اگر آپ کبھی یہیں فز گئے ایسی جگہ اور آپ کو درمیان میں نماز پڑھنے پڑی تو بہتر یہ ہے کہ آپ وہ چکر جو ادھورہ کیا ہے اس کو لوٹا لیں حجرِ اسود پہ لوٹ کے پھر شروع کریں یا پھر کم از کم چار پانچ میٹر پیچھے لوٹے تاکہ جتنا حصہ آپ کا بیت اللہ کی سید میں ہوا ہے وہ تو تواف سے باہر ہے اس پہ دم آئے گا اگر آپ نہیں لوٹائیں گے اس کو تو اس کو پیچھے لوٹ کے کرنا ضروری ہے حجرِ اسود سے بہتر ہے ورنہ چار پانچ میٹر اتنا پیچھے لوٹ جائے کہ یقین ہو جائے کہ یہاں چونکہ آپ انسان رشت میں پھر آگے چلتا جا رہا ہے کبھی ادھر سینہ ہوتا ہے کبھی ادھر ہوتا ہے جب نواز کا وقت ہوتا ہے تو سب صفحے پنانا شروع کر دیتے ہیں تو احتیاط کا نقادہ تو یہ ہے کہ آزان سے پہلے آپ نے چکر مکمل کر کے روک دیں باقی چکر نواز پھر پورے کریں اگرچہ دو چکر ہوئے باقی باقی پانچ کر لیں کوئی حرج نہیں ہے لیکن نواز کے وقت کا ترتیب خاص طور پر عورتوں کے لئے بالکل غلط ترتیب ہے لیکن مرد کو احتیاط ہے کہ آزان سے پہلے روک دیں اور درمیان میں جو چکر ہوا اس کو حجر افصال سے شروع کریں وہ بہتر ہے بخش صاحب ایک نیت کے بارے میں ذرا بتا دیجے گا کہ نیت جب کریں گے تو کیا ایک زبان سے کہنا ضروری ہے اور نیت کے بارے میں ایک سوال کسی نے مجھے ابھی واتس اپ پر بھیجا ہے کہ تینوں کی جو اگر وہ حج قرآن کر رہا ہے تو اس کی نیت کس طرح ہوگی یہ غیران کی نیت ہی ہوتی ہے ایلا میں عمرے اور حج کی نیت کرتا ہوں عمرے اور حج کی ایک ساتھ دونوں کی نیت لبیک اللہم عمرتن وحجہ عمرتن وحجہ عمرے کی بھی اور حج کی دونوں کی نیت کرتا ہوں یہ ہے عربی میں کہنا ضروری نہیں ہے نیت عردوں میں بھی کی جا سکتی ہے اور زبان سے کہنا اس لئے ہوتا ہے کہ حج میں یا عمرے میں کیونکہ لبیک پڑھنا زبان سے ضروری ہے تو لبیک زبان سے ضروری ہے اگر دل میں نیت کر کے آپ نے لبیک زبان سے پڑھ لی تب بھی ٹھیک ہے تو کھالی اصلاں لوگ بعض لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ دل میں تو میرا ارادہ ہے وہ ارادہ الگ چیز ہوتی ہے نیت الگ چیز ہوتی ہے تو نیت کیلئے آپ زبان سے باقیدہ الفاظ ادا کریں تب ہی وہ صحیح تردیب ہیں عمرے اور حج میں ٹھیک لیکن اگر بندے نے لبیک کہ لیا اور خدا نہ خاصتہ زبان سے پڑھنا بھول گیا اگر لبیک داخل ہو احرام میں داخل ہونے کی نیت سے کہہ لی تو کافی ہو جائے گی احرام میں داخل ہونے کی نیت سے کہہنا ضروری ہے اچھا محمود صاحب یہ اگر حج تمتہ کر رہے ہیں اور عمرہ کر لیا اور عمرہ کرنے کے بعد کیونکہ دوسرے تیسرے دن ہج کے بعد پھر قصر کرنا ہے تو کیا ایسی صورت میں افضل کیا ہوگا کہ قصر پورا کروا لیا جائیں عمرہ کے بعد اور پھر دوبارہ حج کے بعد دوبارہ قصر کیا جائیں اگر بال بڑے ہیں تو قصر کر سکتا ہے بڑے بال ہیں تو آپ مشین سے قصر کر لیں بعد میں حلق کر لیں حج میں حلق میں سہولت ہو جاتی ہے لیکن اگر بال چھوٹے ہیں تو پھر تو حلق کرنا ہی پڑے گا اس کو جس نے بہت سے لوگ رمضان میں عمرہ کیا ہوتا ہے یا رمضان میں عمرہ کیا ہے بال چھوٹے ہیں تو ان کو تو حلق ہی کرنا ہے وہ قصر کریں نہیں سکتے لیکن محمود صاحب اگر وہ عمرے میں بھی حلق کر لے تو افضل ہے اس کے لئے عمرے میں بھی ہمارے ہیں تو مطلقاً حلق افضل ہے بعض علاوہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کے بال بڑے ہیں قصر کر لیں تو بہتر ہے بعض علاوہ کہہ رہے ہیں لیکن بغیر بغیر یہ حج کے موقع پر عمرے میں بھی حلق ہی بہتر ہے محمود صاحب آپ نے مستورات کا بتایا تھا جس طرح سے وہ ایک آدھ دو چار بال نہ لیں دو چار بال بھی نہ لیں چند لٹ بھی نہ لیں بلکہ پورے بال پکڑ کے کاٹیں پورے سر کے بال جتنے بھی چوٹی ہیں نیچے دو انچ کاٹ لیں ٹھیک دو انچ کاٹ لیں ٹھیک اور محمود صاحب یہ اگر تمکتوں میں ہوگا تو وہی دو انچ پہلے عمرے کے کٹیں گے اور پھر حج کے بھی اسی طرح ہوں گے حج کے بھی اسی طرح عمرے کے الگ کٹیں گے پھر حج کے الگ کٹیں گے اور محمود صاحب اپنے خود انسان اپنے احرام مطلب جب عمرہ ختم کر لیا یا حج کر لیا تو اپنے مرد کے لئے مسئلہ نہیں ہے عورت اپنے بال خود کٹ سکتی ہے ٹھیک ہے لیکن مرد کے لئے مسئلہ ہے مرد تو چونکہ تیچی اس کے لئے سیمار صحیح نہیں ہے اگر بلیڈ سے اس کو اپنے بال کٹنا آتے ہیں تو بلیڈ سے اپنے بال کٹ لیں مرد نہیں کٹ سکتا بلیڈ میں عام طور پر لوگ نہیں کٹ پاتے اور اسی طرح مشین سے اگر بڑے بال ہیں تو مشین سے آپ کٹ سکتے تو کٹ لیں تو کوئی حراج نہیں ہے لیکن چھوٹے بال ہیں تو حلق ہی کرنا پڑے گا آپ کو جی اچھا مصنف دو لوگ ایک ساتھ عمرہ یا حج کر رہے ہیں تو دونوں ایک دوسری کر سکتے ہیں جب انہوں نے قربانی مطلب جب عمرہ کر لیا یا حج کا مکمل یہ ہو سکتا ہے کہ دو حج کر رہے ہیں دونوں ایک دوسری کا حلق کر لیں تو کوئی حراج نہیں کر سکتے ہیں دو عمرہ دے دونوں ایک دوسری کا حلق کر دے کوئی مسئلہ نہیں اچھا مصنف اگر کوئی مکرو وقت اور جو نماز کا مکرو وقت آ جاتا ہے نیت کے وقت میں تو اس میں پھر وہ نماز نہیں پڑے گا سنت احرام کی احرام باندھنے کے وقت نیت کرتے ہوئے اگر اسر بعد کوئی نیت کر رہا ہے تو دو رکعات نہیں پڑے گا خالی نیت کرے گا اور لبک پڑے گا اور اسی طرح اگر جو تواف کے واجب ہیں وہ رش کی وجہ سے اگر اسر کے بعد اس نے تواف ختم کیا ہے اور اس کو واپس جانا ہے تو پھر ایسی صورت میں کیا احرام سے باہر جا کے یا کیمپ میں پڑ سکتا ہے وہ اپنی تواف کی دو رکعات مینہ جا کے بھی پڑ سکتے ہیں تواف کی دو رکعات مینہ میں بھی پڑی جا سکتی ہیں یہ بھی صحیح مکمل کر لے اور اگر دو رکعات مینہ میں جا کے پڑ مینہ بھی ہو تو دہرہ میں وہاں پڑنے میں کوئی حراج نہیں ہے حضور صاحب ایک سوال اور تھا توافِ اے سوری حجِ افراد کے اندر کیا توافِ قدوم لازم ہے سنت لازم نہیں ہے افراد میں توافِ قدوم سنت ہے حجِ افراد میں اوہ اچھا حضور صاحب بعض کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ قرآن کے اندر جو ہے وہ کیونکہ یہ سوال آگے بھی لوگی پوچھیں گے تو اس لئے یاد آگیا تو پوچھ لوں گے قرآن میں دو صحیح ہوں گی قرآن میں جو ہے ایک صحیح عمرے کی ہوتی ہے ایک صحیح حج کی ہوتی ہے اس لئے ہم نے قرآن کا پورا بیان ریکارڈ کرا دیا تاکہ لوگ اس کے طرف سننے سمجھ لیں اس کو قرآن کرنا ہے وہ اس کو سن کے سمجھ کے کرے ورنہ انسان ایک عمرے کی صحیح کر لے گا حج کی نہیں کرے گا یا حج کی کر لے گا عمرے نہیں کرے گا تو تم دینا پڑے گا باقی اس میں مثلقوں کے اختلاف موجود ہے تو اس لئے ایک انسان کنفیوز ہوتا ہے تو اپنی جو ترتیب ہے اسے ترتیب سے کھڑے وہی ترتیب جو ہے صحابہ سے منقول ہے علی رضی اللہ تعالیٰ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ نے جو قرآن کیا تھا اللہ کے نبی کے ساتھ تو ان سے یہی منقول ترتیب دوسائی کی تو دوسائی کرنا وہ اصل طریقہ ہے۔ مصنف ایک سوال یہ تھا کہ اگر کوئی شخص حجے بدل کر رہا ہے تو پھر ایسی صورت میں اس کی قربانی کس کے نام کی ہوگی؟ حجے بدل میں جو حج کرتا ہے وہ قربانی اپنی نام سے دیتا ہے حج کسی اور کے نام سے ہوگا قربانی اس کے اپنے نام سے ہوگی اور مصنف نیت میں بھی وہ کیا نیت کس طرح کی ہوگی اس کی؟ حج کی نیت تو دوسری طرح سے کرے گا قربانی تو حج کی نیت سے دے گا حجِ تمتعی کی نیت سے اپنے نام سے دے گا تمتعی کیا تو تمتعی کی نیت سے دے گا قرآن کیا تو قرآن کی نیت سے دے گا ایک سوال یہ تھا کہ ایک شخص ہے جو حج بدل کر رہا ہے لیکن اس نے حج کے ایام میں ہی عمرہ کر لیا ہے تو یہ عمرہ جو کرے گا اس نے تو پہلے عمرہ کر لیا تو عمرہ کی نیت میں بھی جس کے نام کا کر رہا ہے اُس کی نیت ہوگی وہ تو کر چکا ہے تو الگ ہو گیا دوبارہ جب کرے گا تو اس میں اُن کی نیت کر لے گی پہلے تو الگ ہو گیا نا اعتبار اپنے نام سے کر چکا ہے لیکن وہ اب کرے گا حجِ تمتعی ہاں تمتعی کرنا پڑے گا اگر وہ تینسلی نہیں گیا تو حجِ تمتعی کرنا پڑے گا مصنف ایک سوال جو آپ کو مجھ سے زیادہ پتا ہو قربانی کا مسئلہ جب آتا ہے تو وہ بعض دفعہ میسج آتے ہیں بعض دفعہ میسج نہیں آتے ہیں تو ایسی صورت میں کیا کرنا پڑے گا کہ انتظار کرنا پڑے گا اور کب تک انتظار کرنا پڑے گا کتنے لوگوں نے قربانی سرکاری بین ادھارے کو دیئے ہیں تو جن کو میسج نہیں آیا ہے وہ انتظار کرے ہیں وہ رمی جلدی کرنے اور حلق قصر کرنے میں انتظار کریں یا تو رات کو کریں یا دوسرے دن کریں مطلب یہ کہ غروبِ آفتاب کے بعد تک انتظار کریں رات تک غروبِ آفتاب کے بعد تک انتظار کریں ٹھیک اور مصنف یہ جو تینوں دن کے جو کنکریوں کے وقت ہیں جو انتہائی اور ابتدائی وقت ہے اس کا ذرا دوبارہ بتا دیجئے گا پہلے دن کا تو وقت طویل ہوتا ہے صبح سے شروع ہوتا ہے طولِ آفتاب کے بعد سے لے کے ہم نے جیسے کہنا مغرب تک بھی مار سکتے ہیں مغروب بعد بھی رمی کیا جا سکتی ہے پہلے دن تو کافی وقت ہوتا ہے لوگ دن میں مار کے فارغ ہو جاتے ہیں دوسرے دن کا مسئلہ ہوتا ہے دوسرے دن زوال سے شروع ہوتا ہے زہر سے اور مغرب تک مسئلون ہیں مغرب کے بعد مکرو ہے اب مکرو جو ہے مغربات شروع ہوتا ہے تو جن کے جو ضائف ہیں خواتین ہیں تو مغربات بھی بلاکہ رات ان کی بھی رمی ہو جاتی ہے اب کب تک رمی کریں رات میں تو کوشش کرنے سے کیونکہ مغربات تو عموماً رشنی ہوتا ہے معامولی سے لوگ رہ جاتے ہیں جو رشن سارا دن میں ہوتا ہے آج کل تو خاص طور پر لوگ بے حساب مارتے رہتے ہیں چوبیس گھنٹے لوگ رمی کرتے رہتے ہیں آج کل لوگ بے حساب ایسے ہی مسائل سیکھتے ہیں چوبیس گھنٹے رمی کرتے رہتے ہیں تو رات کے وقت میں رشنی ہوتا ہے تو رات میں جس کو رمی کرنا ہے تو مغربات کوشش کریں کہ بارہ بجے سے پہلے رمی سے فارغ ہو جائیں اگر بارہ بجے بعد کوئی کرنے جائے گا تو خطرہ ہوتا ہے پھر مزید تاخیر ہوگی کبھی کیونکہ ٹرافک کا مسئلہ ہوتا ہے کبھی اس کے مسائل ہوتے ہیں پھر دم کا خطرہ ہو جاتا ہے تو اس لئے بھئی کہتے ہیں رات میں کسی کو کرنا بھی ہے کسی وجہ سے۔
Summary in English
In the name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. Hajj is an essential obligation in Islam, made mandatory in the 9th year of Hijra. The Prophet Muhammad (PBUH) performed Hajj in the 10th year, known as the Farewell Hajj. The Prophet (PBUH) performed Hajj Qiran, while most companions intended Hajj Ifrad. He instructed them to perform Tamattu as they were unaware of the correct procedures.
There are three types of Hajj: Tamattu, Ifrad, and Qiran. In Tamattu and Qiran, both Umrah and Hajj are performed in one journey, whereas, in Ifrad, only Hajj is performed. Certain restrictions apply during the state of Ihram, such as not wearing stitched clothing, applying perfume, or hunting.
Upon reaching Mecca, pilgrims perform Tawaf, followed by Sa’i between Safa and Marwah. Those performing Tamattu exit the state of Ihram and re-enter it on the 8th of Dhul-Hijjah. Pilgrims go to Mina on the 8th, Arafat on the 9th for supplication until sunset, and then to Muzdalifah for combined prayers and overnight stay. On the 10th, they perform the stoning of Jamrat al-Aqabah, sacrifice an animal, and shave or cut their hair, followed by Tawaf al-Ifadah.
They perform stoning on the 11th and 12th and may stay for the 13th for an additional stoning. Before leaving Mecca, they perform the Farewell Tawaf, completing the major rituals of Hajj.
AI-Generated Translation in English
This is an AI generated translation thus it is prone to errors.
In the name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. Praise be to Allah, the Lord of all the worlds, and peace and blessings be upon His Messenger, the trustworthy Prophet, and upon his family and his noble companions, and those who follow them in goodness until the Day of Judgment.
Hajj is an important obligation in Islam, which was made mandatory in the ninth year of Hijra. After it became obligatory, the Prophet (PBUH) performed one Hajj, in the tenth year of Hijra, known as the Farewell Hajj. This was the first and last Hajj of the Prophet (PBUH) after it became obligatory. During this Hajj, many companions accompanied the Prophet (PBUH) in large numbers, and they had many questions during this journey.
The Hajj performed by the Prophet (PBUH) was Hajj Qiran, while most of the companions intended for Hajj Ifrad. Later, the Prophet (PBUH) ordered them to perform Tamattu. Since this was the first Hajj, they did not know how to perform it. Before Islam, Arabs believed that one could not perform Umrah during the Hajj journey. There was only one type of Hajj, which was Ifrad, and they had no concept of Tamattu and Qiran. They thought that Hajj could only be Ifrad and that Tamattu or Qiran could not be performed, meaning Umrah could not be performed.
The Prophet (PBUH) instructed the companions to perform Tamattu, so most of them performed Hajj Tamattu, while the Prophet (PBUH) himself performed Qiran. He took a sacrificial animal with him and said that if he had not brought the animal, he would have performed Tamattu like them. Although it is not mandatory to take a sacrificial animal for Qiran, it was common in those days for those performing Hajj to bring a sacrificial animal with them, whether they were performing Tamattu or Qiran. However, it is not necessary, and in today’s times, the concept of bringing an animal with you has ended. Now, people buy the animal there and sacrifice it according to the official system.
The companions performed Hajj Tamattu. There are three types of Hajj: Tamattu, Ifrad, and Qiran. Ifrad is for those who live within the Miqat, such as the residents of Jeddah, Bahra, Juman, Uthman, and those living within the Miqat. For these people, Hajj Ifrad is mandatory. Those living within the Miqat cannot perform Tamattu or Qiran; they can only perform Hajj Ifrad. If they perform Tamattu or Qiran, they have to offer a sacrifice.
The Prophet (PBUH) performed Hajj Qiran, traveling from Medina, while the companions performed Tamattu from Medina. For non-local people, Allah mentioned in the Quran, “That is for those whose families are not in the vicinity of the Sacred Mosque,” indicating that Tamattu is for those who do not live near the Kaaba.
For those within the Miqat, they are considered to be living close to the Kaaba. Since the journey in those times was very challenging and took many days or even weeks, people who came from afar were given the facility to perform both Umrah and Hajj in one journey. In today’s times, the journey has become very easy, but in those days, it was very difficult.
For those who come from outside the Miqat, they can perform Umrah and Hajj together in one journey. In Tamattu, after performing Umrah, one takes off the Ihram and then makes the intention for Hajj. In Qiran, both intentions (Umrah and Hajj) are made together, and one does not take off the Ihram until both are completed.
There is a benefit in performing Tamattu and Qiran, which is that one can perform Umrah first in one journey and then perform Hajj. Therefore, a sacrifice of gratitude is obligatory in Tamattu and Qiran, which is offered on the 10th of Dhul-Hijjah after throwing the stones, sacrificing the animal, and then shaving or cutting the hair, and one comes out of the Ihram. In Tamattu and Qiran, this sacrifice of gratitude is obligatory. In Ifrad, since there is no prior Umrah, there is no obligatory sacrifice. However, it is recommended to offer a sacrifice if it is one’s first Hajj.
For those living within the Miqat, Hajj Ifrad is designated, and they have no option to perform Tamattu or Qiran. They can only perform Hajj Ifrad. If they perform Umrah during the months of Hajj and then perform Hajj, they have to offer a sacrifice, as this becomes a form of Tamattu. Those living within the Miqat are not allowed to perform Tamattu or Qiran, and their sacrifice in Hajj is recommended but not obligatory. For non-local people, Tamattu and Qiran are more common, with Qiran being preferred by Imam Abu Hanifa as it was the type performed by the Prophet (PBUH).
Imam Shafi and others consider Tamattu to be better. In modern times, most people are advised to perform Tamattu because the rules for Qiran can be a bit more complex. In Qiran, if one makes a mistake in the state of Ihram, two sacrifices may be required. Therefore, while Qiran has its merits, it can also be challenging. It is advised for those who are not well-versed in the rules of Qiran to perform Tamattu instead.
Now, regarding how Hajj is performed and the procedures involved: Those who will be donning the Ihram for Umrah will also be doing so for Hajj. Everyone should don the Ihram at the Miqat or before it, especially those traveling by plane, who should don it before boarding. Those traveling by train from Medina should also don the Ihram before boarding, performing two Rakahs of Salah before donning the Ihram.
It is advised to perform the Salah before boarding, as waiting for the announcement on the train can often result in missing the Miqat. If the announcement is delayed and the train crosses the Miqat, it can result in a penalty.
Regarding the Ihram and the things to avoid during the state of Ihram:
- Wearing stitched clothing for men is prohibited.
- Men should not cover their heads or faces or wear shoes that cover the ankles or the top of the feet. Women should cover their heads but not their faces, and they can wear any footwear.
- Applying perfume or using scented soap is prohibited after entering the state of Ihram.
- Removing hair from the body and cutting nails are prohibited.
- Engaging in marital relations or any sexual activity is prohibited.
- Hunting or harming animals is prohibited.
The restrictions of Ihram last until the major rituals of Hajj are completed, including Tawaf (circumambulation) and Sa’i (walking between Safa and Marwah).
Upon reaching Mecca, the first ritual is Tawaf, which involves seven circuits around the Kaaba. Each circuit starts and ends at the Black Stone. After completing Tawaf, one performs two Rakahs of Salah behind Maqam Ibrahim if possible. Then, the Sa’i between Safa and Marwah is performed, which involves walking seven times between these two hills. After Sa’i, those performing Tamattu will cut their hair or shave their heads to exit the state of Ihram until they enter it again for Hajj.
On the 8th of Dhul-Hijjah, known as Yawm al-Tarwiyah, pilgrims proceed to Mina and spend the day and night there, performing five prayers from Dhuhr to Fajr. On the 9th of Dhul-Hijjah, they proceed to Arafat after Fajr, spending the day in supplication and prayer until sunset. After sunset, they move to Muzdalifah, where they perform the Maghrib and Isha prayers combined and stay overnight, collecting pebbles for the stoning ritual.
On the 10th of Dhul-Hijjah, they return to Mina for the stoning of Jamrat al-Aqabah, followed by the sacrifice of an animal. After the sacrifice, male pilgrims shave their heads or cut their hair, while female pilgrims cut a small portion of their hair. Then, they perform Tawaf al-Ifadah in Mecca, which is one of the pillars of Hajj, followed by another Sa’i if performing Tamattu or Qiran.
On the 11th and 12th of Dhul-Hijjah, pilgrims perform the stoning of the three Jamarat in Mina after Dhuhr each day. They can choose to leave Mina after the stoning on the 12th or stay for the 13th and perform the stoning once more.
Finally, before leaving Mecca, pilgrims perform the Farewell Tawaf (Tawaf al-Wada), which is the last obligatory act of Hajj. This concludes the major rituals of Hajj, and pilgrims are then free to return to their homes, having fulfilled one of the most important obligations in Islam.
Audio / Podcast in English
Contributed by Abdullah Ali Abdullah bin Mahfouz Hajj Group
Leave a Reply