Video: Ghusal Ke Masail aur Tariqah (Urdu)
eBook: Ghusal Ke Masail aur Tariqah (Urdu)
Article: Ghusal Ke Masail aur Tariqah (Urdu)
غسل کے احکام ومسائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
غسل کے فرائض:
۱) اس طرح کلی کرنا کہ سارے منہ میں پانی پہنچ جائے۔ ۲) ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا۔ ۳) بدن پر اس طرح پانی بہانا کہ ایک بال کے برابر بھی جگہ خشک نہ رہے۔
کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے متعلق بعض علماء کی رائے ہے کہ یہ وضو کی طرح غسل میں بھی سنت ہیں، مگر فقہاء وعلماء کی بڑی جماعت (مثلاً امام ابوحنیفہؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ) کی رائے ہے کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل میں ضروری ہے اور اس کے بغیر غسل ہی نہیں ہوگا۔ ہندوپاک کے جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ سعودی عرب کے مشہور ومعروف عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے بھی یہی کہا ہے۔ جن علماء نے ان دونوں اعمال کو سنت قرار دیا ہے، ان کے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص واجب غسل میں یہ دونوں اعمال چھوڑکر غسل کرکے نمازیں ادا کرلے تو نمازوں کا اعادہ ضروری نہیں ہے، جبکہ علماء احناف کی رائے میں نمازوں کا اعادہ ضروری ہوگا۔
نوٹ
اگر کسی شخض کو غسل سے فراغت کے بعد یاد آیا کہ کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا ہے تو غسل کے بعد بھی جو عمل رہ گیا ہے اس کو پورا کرلے، دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کلی اور ناک میں پانی ڈالے بغیر قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور علماء کی رائے ہے کہ غسل صحیح نہیں ہوگا۔
اگر باتھ روم میں غسل کررہے ہیں جہاں کوئی دیکھ نہ سکے تو ننگے ہوکر غسل کرنا جائز ہے چاہے کھڑے ہوکر غسل کریں یا بیٹھ کر، لیکن بیٹھ کر غسل کرنا بہتر ہے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
اگر ناخن پالش لگی ہوئی ہے تو وضو اور غسل میں اس کو ہٹاکر وضو اور غسل کرنا واجب ہے، اگر اس کو ہٹائے بغیر کوئی عورت وضو یا غسل کرے گی تو اس کا وضو یا غسل صحیح نہیں ہوگا۔ لیکن اگر بالوں یا جسم پر منہدی لگی ہوئی ہے تو اس کے ساتھ وضو اور غسل صحیح ہے کیونکہ منہدی جسم میں پیوست ہوجاتی ہے جبکہ ناخن پالش ناخن کے اوپر رہتی ہے اور اس کو ہٹایا بھی جاسکتا ہے اور یہ پانی کو اندر تک پہنچنے سے مانع بنتی ہے۔
غسل میں پانی کا بے جا اسراف نہ کریں، ضرورت کے مطابق ہی پانی کا استعمال کریں۔ ہمارے نبی ﷺ پانی کی بہت کم مقدار سے غسل کرلیا کرتے تھے۔
عورت کے حیض یا نفاس سے پاک ہونے کے بعد غسل سے فراغت کے بعد ہی صحبت کی جاسکتی ہے۔
غسل کا مسنون طریقہ:
غسل کرنے والے کو چاہئے کہ وہ پہلے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر بدن پر جوناپاکی لگی ہوئی ہے اس کو صاف کرے اور استنجاء بھی کرلے۔پھر مسنون طریقہ پر وضو کرے۔ وضو سے فراغت کے بعد پہلے سر پر پانی ڈالے ، پھر دائیں کندھے پر اور پھر بائیں کندھے پر پانی بہائے اور بدن کو ہاتھ سے ملے۔ یہ عمل تین بار کرلے تاکہ یقین ہوجائے کہ پانی بدن کے ہر ہر حصہ پر پہنچ گیا ہے۔ اگر آپ شاور سے نہارہے ہیں تب بھی اس کا اہتمام کرلیں تو بہتر ہے ورنہ کوئی حرج نہیں۔ اگر نہانے کا پانی غسل کی جگہ پر جمع ہورہا ہے تو وضو کے ساتھ پیروں کو نہ دھوئیں بلکہ غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے علیحدہ ہوکر دھوئیں۔
غسل کب واجب ہوتا ہے؟
خروج منی : یعنی منی کا شہوت کے ساتھ جسم سے باہر نکلنا خواہ سوتے میں ہو یا جاگتے میں۔
جماع: یعنی مرد وعورت نے صحبت کی جس سے مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ عورت کی شرمگاہ میں چلا گیا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔
نوٹ: بیوی کے ساتھ بوس وکنار کرنے میں صرف چند قطرے رطوبت کے (مذی) نکل جائیں تو اُس سے غسل واجب نہیں ہوتا۔
عورت کا حیض یا نفاس سے پاک ہونا۔
صرف جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے:
ان دنوں بعض حضرات نے غسل کے واجب ہونے کے دوسرے سبب کے سلسلہ میں جمہور علماء کے فیصلہ کے خلاف عام لوگوں کے سامنے کچھ شک وشبہات پیدا کردئے ہیں،ان حضرات کا موقف ہے کہ صرف صحبت کرنے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے بلکہ غسل کے واجب ہونے کے لئے منی کا نکلنا بھی ضروری ہے۔ مسئلہ کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر اس موضوع پر میں دلائل کے ساتھ قدرے تفصیلی روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں۔
خیر القرون سے آج تک جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کی رائے ہے کہ اگر مرد وعورت نے اس طرح صحبت کی کہ مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ عورت کی شرمگاہ میں چلا گیا تو غسل واجب ہوجائے گا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور فقیہ ومحدث حضرت امام ابوحنیفہ ؒ ، علماء احناف اور ہندو پاک کے جمہور علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ سعودی عرب کے بیشتر علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ ابتدائے اسلام میں اس مسئلہ میں کچھ اختلاف رہا ہے، لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ازواج مطہرات سے رجوع کرنے کے بعد صحابۂ کرام کا اس پر اجماع ہوگیا کہ محض جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے، جیسا کہ عقائد کی سب سے مشہور کتاب تحریر کرنے والے ۲۳۹ھ میں مصر میں پیدا ہوئے حنفی عالم امام طحاویؒ نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔
جمہور علماء کے دلائل: جمہور علماء کے متعدد دلائل ہیں، اختصار کے مدنظر صرف تین احادیث ذکر کررہا ہوں:
* حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد عورت کے چہار زانو میں بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ کوشش کی تو غسل واجب ہوگیا ۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الغسل ۔ باب اذا التقی الختانان) صحیح مسلم ۔ باب بیان الغسل کی اس حدیث میں یہ الفاظ بھی وضاحت کے ساتھ موجود ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا (اِنْ لَمْ ےَنْزِلْ) خواہ منی نہ نکلے، یعنی صرف جماع کرنے سے غسل واجب ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔ امام بخاری ؒ نے (صحیح بخاری) میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث اس باب کی تمام احادیث میں عمدہ اور بہتر ہے اور ہم نے دوسری احادیث فقہاء کے اختلاف کے پیش نظر ذکر کی ہیں اور احتیاط اسی میں ہے کہ جماع کی صورت میں منی کے نہ نکلنے پر بھی غسل کیا جائے۔ غرضیکہ امام بخاری ؒ نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے کہ صحبت میں منی نہ نکلنے پر بھی غسل کیا جائے۔ صحیح مسلم میں وارد حضور اکرم ﷺ کے قول (اِنْ لَمْ ےَنْزِلْ) سے مسئلہ بالکل ہی واضح ہوجاتا ہے کہ جماع میں منی نہ نکلنے پر بھی غسل واجب ہوتا ہے۔
نوٹ: دونوں کی شرمگاہ کے صرف ملنے پر غسل واجب نہ ہوگا بلکہ مرد کی شرمگاہ کے اوپری حصہ کا عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونا ضروری ہے جیسا کہ محدثین وفقہاء وعلماء نے حضور اکرم ﷺ کے دیگر اقوال کی روشنی میں اس حدیث کے ضمن میں تحریر کیا ہے۔
* حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے ۔ (ترمذی ۔۔۔ ابواب الطہارۃ ۔…۔۔ باب ما جاء اذا التقی الختانان) یہ حدیث ترمذی کے علاوہ متعدد کتب حدیث میں موجود ہے۔ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا کہ صحابۂ کرام (جن میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر ،حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں) کا یہی قول ہے۔ فقہاء وتابعین اور ان کے بعد علماء حضرت سفیان ثوریؒ ، حضرت احمدؒ اور حضرت اسحاقؒ کا قول ہے کہ جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔
حضوراکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں اور حشفہ (مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ) چھپ جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے ۔ (مسند احمد ، ابن ماجہ) ۲۶۰ھ میں پیدا ہوئے امام طبرانی ؒ نے حدیث کی کتاب (المعجم الاوسط) میں حدیث کے الفاظ اس طرح ذکر فرمائے ہیں کہ حضوراکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں اور حشفہ (مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ) چھپ جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔
جن حضرات نے غسل کے واجب ہونے کے لئے منی کے نکلنے کو ضروری قرار دیا ہے، وہ عموماً صحیح مسلم میں وارد اس حدیث کو دلیل کے طور پر پیش فرماتے ہیں: (انما الماء من الماء) پانی پانی سے واجب ہوتا ہے، جس کا یہ مفہوم لیتے ہیں کہ غسل منی کے نکلنے کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔ امام مسلم ؒ نے اس حدیث کے علاوہ بھی احادیث ذکر فرمائی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل کے لئے خروج منی ضروری ہے۔ مگر امام مسلم ؒ نے ان تمام احادیث کو ذکر کرنے کے لئے جو اِس باب (Chapter) کا نام رکھا ہے وہ یہ ہے: (ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور اب صرف جماع سے غسل واجب ہے) امام مسلم ؒ کے اس باب کے یہ نام رکھنے سے مسئلہ خود ہی روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ابتدائے اسلام میں غسل واجب نہ تھا بعد میں وہ حکم حضور اکرم ﷺ نے منسوخ کرکے ارشاد فرمادیا کہ منی نکلے یا نہ نکلے، صرف جماع سے ہی غسل واجب ہوجائے گا۔ امام مسلم ؒ نے اس موقع پر یہ بھی تحریر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث دوسری حدیث کو منسوخ کردیتی ہے جس طرح قرآن کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ ہوجاتی ہے۔ صحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے امام نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ امام مسلم ؒ کا اس بات کو ذکر کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ پہلی احادیث منسوخ ہیں کیونکہ بعد کی احادیث میں صراحۃ موجود ہے کہ خواہ منی نکلے یا نہ نکلے ، محض حشفہ اندر جانے سے مردوعورت دونوں پر غسل واجب ہوجاتا ہے اور اسی پر اجماع امت ہے۔ نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے یہی فرمایا کہ مردو عورت کی شرمگاہ کے ملنے سے غسل واجب ہوجاتا ہے،میں اور حضور اکرم ﷺ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
امام ترمذی ؒ نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور اب صرف جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے چنانچہ امام ترمذیؒ مشہور ومعروف صحابی اور کاتب وحی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ کا فرمان اپنی کتاب (ترمذی) میں ذکر فرماتے ہیں: ( ابتدائے اسلام میں غسل اسی وقت فرض ہوتا تھا جب منی نکلے، یہ رخصت کے طور پر تھا، پھر اس سے منع کردیا گیا،یعنی یہ حکم منسوخ ہوگیا)۔ امام ترمذیؒ تحریر کرتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور غسل کے واجب ہونے کے لئے ابتدائے اسلام میں منی کا نکلنا ضروری تھا، مگر بعد میں منسوخ ہوگیا۔ اسی طرح کئی صحابہ نے روایت کیا ہے۔ اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے جماع کرے تو میاں بیوی دونوں پر غسل واجب ہوجائے گااگرچہ منی نہ نکلے۔ (ترمذی )
خلاصۂ بحث: خلفائے راشدین، کاتب وحی حضرت ابی بن کعب، حضرت عائشہ ، دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم، محدثین وفقہاء وعلماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کیا گیا کہ ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور بعد میں صرف جماع سے بھی غسل واجب ہوا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب یہ مسئلہ اٹھاتو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جلیل القدر صحابہ کو مشورہ کے لئے طلب کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ازواج مطہرات (یعنی امہات المؤمنین) سے اس مسئلہ میں رجوع کیا جائے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب ختان ختان سے تجاوز کرجائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی تصدیق کی کہ غسل کے لئے صرف مرد کی شرمگاہ کا عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونا کافی ہے ، منی نکلنا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ اسی کے مطابق فیصلہ کردیا گیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اس کے خلاف میں نے کسی سے کچھ سنا تو اسے لوگوں کے لئے عبرت بنادوں گا۔ امام طحاویؒ (۲۳۹ھ۔۳۲۱ ھ) نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔ سعودی عرب کے مشہور ومعروف عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے تحریر کیا کہا ہے کہ صرف جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے مگر بہت سارے لوگوں پر ہفتے اور مہینے گزر جاتے ہیں اور وہ اپنی بیوی سے بغیر انزال کے صحبت کرتے رہتے ہیں اور غسل نہیں کرتے۔ یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی حدود سے واقف ہو۔انسان نے اگر صحبت کی تو غسل واجب ہوگیا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔۔۔مجموع فتاوی ورسائل الشیخ عثیمین ؒ باب الغسل ۱۱/ ۲۱۷
انما الماء من الماء کا حکم منسوخ ہے:
جہاں تک حدیث (انما الماء من الماء) کا تعلق ہے تو یا تو یہ منسوخ ہے جیساکہ رسول اللہ سے صحبت یافتہ وکاتب وحی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ کا فرمان ہے : (ابتداء اسلام میں غسل اسی وقت فرض ہوتا تھا جب منی نکلے، یہ رخصت کے طور پر تھا، پھر اس سے منع کردیا گیا یعنی یہ حکم منسوخ ہوگیا)۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ قول امام ترمذیؒ نے ذکر فرماکر تحریر کیا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ یہ مسئلہ ایسا ہی ہے کہ ابتدائے اسلام میں آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضوٹوٹ جاتا تھا مگر بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا، پہلے حکم سے متعلق احادیث بھی کتب حدیث میں موجود ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہے۔ بڑے بڑے محدثین مثلاً امام بخاریؒ ، امام مسلمؒ ، امام ترمذیؒ اور امام نوویؒ نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ اس حدیث کا تعلق احتلام سے ہے، یعنی اگر کسی شخص کو احتلام ہوجائے تو غسل واجب ہے۔ اس صورت میں اس حدیث (انما الماء من الماء) کا مطلب ہوگا کہ پانی (غسل) پانی (احتلام) کی وجہ سے واجب ہے۔ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث جماع کے لئے منسوخ ہوچکی ہے لیکن احتلام کے لئے اب بھی واجب العمل ہے۔ اور ایسا بکثرت ہوتا ہے کہ ایک حدیث کے بعض جزئیات منسوخ اور بعض واجب العمل ہوں۔ قرآن کریم کی بعض آیات کا حکم بھی منسوخ ہے لیکن اس کی تلاوت قیامت تک باقی رہی گی۔
مجھے اس مسئلہ میں بہت تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے بعض بھائی جو حدیث کا علم بلند کرکے اس پر عمل کرنے کی دعوت تو دیتے ہیں لیکن اس مسئلہ میں باوجودیکہ احادیث میں ہی وضاحت موجود ہے کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہوگیا لیکن ۱۴۰۰ سال کے بعد بھی اپنی غلطی پر مصر ہیں حالانکہ دلائل شرعیہ کی موجودگی کے باوجود احتیاط کا تقاضی بھی یہی ہے کہ غسل کو واجب قرار دیا جائے تاکہ انسان ناپاکی کی حالت میں ساری دنیا کا چکر نہ لگاتا پھرے اور اسی حال میں نماز نہ پڑھتا رہے۔ امام مسلم ؒ نے اس بحث پر جو باب (Chapter) باندھا ہے وہ اس طرح ہے: (ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور اب صرف جماع سے غسل واجب ہے)۔ امام مسلم ؒ نے مسئلہ روز روشن کی طرح واضح کردیا کہ ابتدائے اسلام میں غسل واجب نہ تھا، بعد میں وہ حکم (انما الماء من الماء) حضور اکرم ﷺ نے منسوخ کرکے ارشاد فرمادیا (اِنْ لَمْ ےَنْزِلْ) منی نکلے یا نہ نکلے، صرف جماع سے غسل واجب ہوجائے گا۔ غرضیکہ محدثین کرام خاص کر امام بخاریؒ ، امام مسلمؒ اور امام ترمذی ؒ کی وضاحتوں سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہوگیا۔ امام نوویؒ جیسے محدث نے بھی یہی تحریر کیا ہے کہ جمہور صحابہ اور ان کے بعد کے علماء نے یہی کہا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے۔
سعودی عر ب کے مشہور عالم شیخ محمد صالح المنجد صاحب سے جب مسئلہ مذکورہ میں رجوع کیا گیا تو جواب دیاکہ علماء کا اجماع ہے کہ جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو اور انہوں نے دلیل کے طور پر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد اُس حدیث کا ذکر کیا جو میں نے جمہور علماء کے دلائل کے ضمن میں سب سے پہلے ذکر کی ہے۔ اور فرمایا کہ (ریاض الصالحین کے مصنف اور مشہور محدث) امام نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ مرد کی شرمگاہ کے اوپری حصہ کے عورت کی شرمگاہ میں جاتے ہی غسل واجب ہوجائے گا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔ بعض صحابہ کا اس میں اختلاف تھا مگر بعد میں اجماع ہوگیا جیسا کہ ذکر کیا گیا۔ اور شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے فرمایا کہ یہ حدیث منی نہ نکلنے پر بھی جماع سے غسل کے واجب ہونے میں صریح ہے اور جو حضرات جماع میں انزال نہ ہونے پر غسل نہیں کرتے وہ غلطی پر ہیں۔ نیز سعودی عرب کی لجنہ دائمہ کے فتاوی (۳۱۴ / ۵) میں وارد ہے کہ عورت کی شرمگاہ میں مرد کی شرمگاہ کے اوپری حصہ کے داخل ہونے پر غسل واجب ہوجائے گا خواہ انزال ہو یا نہ۔ سعودی عر ب کے مشہور عالم شیخ محمد صالح المنجد صاحب کا یہ جواب انٹرنیٹ کے اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے : يجب الغسل من الجماع وإن لم يحصل إنزال – الإسلام سؤال وجواب
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو قرآن وحدیث صحیح سمجھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا بنائے، آمین۔
Article: Rulings of Ghusal and Its Related Issues (English)
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
Obligations of Ghusal
Ghusl has three obligations.
The Masnoon Way of Ghusl
The following method of taking a bath is Masnoon:
- To cleanse the mouth in such a way that water accesses to all parts of the mouth.
- To cleanse the nose making sure that the water reaches up to the soft bone in the nose.
- To pour water on the whole body ensuring that not a single part of the body remains dry.
- If a person, after the end of the bath, remembers that he has not cleansed his mouth or nose, he should instantly cleanse his mouth or nose but he does not need to take bath again.
- One can bath naked if he is sure that the place is completely closed and no one can see him, but in such a case, it is better to take bath sitting, as it will cover the maximum part of the body.
- A woman needs to remove her nail polish before making ablution and taking a bath, otherwise, her ablution and bath will be invalid. On the contrary, if she is using henna on her body or hair, she does not have to remove it. The reason for this difference is that nail polish is thick and prevents water to penetrate on the nails, but henna penetrates into the body or hair and becomes a part of it.
- Wash both hands up to the wrist to remove the filth from your hands.
- Clean the private part even though filth is visible or not.
- Make ablution just like, it is made for prayer. Avoid washing foot, if you are taking a bath in a place where used water gathers. Otherwise, make complete ablution. Wash your feet at a place where used water is not gathered.
- Pour water on your head followed by right and left shoulder of your body thrice.
- While pouring water on the body, rub your hand properly so that no part remains dry.
- If you are taking a shower, you are supposed to follow the above process as much as you can.
Note: Scholars of Islam differ regarding mouth and nose wash. Some of them believe that cleansing the mouth and nose is Sunnah. According to them, if a person forgets to cleanse either of mouth or nose or both and offers prayer, the prayer is valid and he is not required to repeat it. The majority of the scholars including Imam Abu Hanifa and Imam Ahmad bin Hanmbal (RHA) are of the opinion that cleansing the mouth and nose is obligatory in Ghusl. Scholars of India and Pakistan, as well as Sheikh Muhammad bin Salih Al-Othaimeen a reputed scholar of Saudi Arabia all of them too, have a similar opinion. Thus in case a person forgets to cleanse either mouth or nose and offers prayer, the prayer is invalid and he is required to offer it again.
When Ghusl Becomes Obligatory?
There are three reasons that make Ghusl obligatory:
- Ejaculation of semen which can happen when one is awake or asleep.
- After intercourse. In the case of intercourse, the ejaculation of the semen is not necessary. Mere penetration of the penis into the vagina is all needed for Ghusl to become obligatory.
- At the end of menstruation (حيض) and puerperal bleeding (نفاس) for women.
Note: Mazi (pre-cum) that comes out while thinking of intercourse or kissing wife does not make Ghusl obligatory.
Ghusl is required when Penis penetrates into the Vagina, Even If Ejaculation Does Not Take Place
Today some people (against the consensus of the majority of the scholars) believe that mere penetration of the penis into the vagina does not make Ghusl obligatory. Since this issue is of great importance, I would like to discuss it in detail bringing forth the evidence of the majority of scholars who believe that penetration of the penis into the vagina makes Ghusl obligatory.
At first, I would like to clarify that the majority of Islamic scholars from the early time till today including Imam Abu Hanifa, his disciples throughout the world and a large number of Saudi scholars have consensus that ejaculation of the semen is not required for Ghusl becoming obligatory in case of intercourse. Although earlier there were some differences of opinions among a few Companions (RA) of the Prophet (SAW). But later they too agreed on the obligation of Ghusl after consultation with the wives (RA) of the Prophet (SAW). Below I am going to mention a few Hadeeth that concede this opinion.
Abu Musa reported:
“… The Messenger (SAW) of Allah (ﷺ) said: When anyone sits amidst four parts (of the woman) and the circumcised parts touch each other a bath becomes obligatory.“
Hadith 349 – Book 3 (The Book of Menstruation) – Sahih Muslim
The same Hadeeth has been narrated in other words where it is mentioned that bath is obligatory, even if one does not ejaculate semen. Imam Bukhari too has narrated this Hadeeth in his book and says that this Hadeeth is the most authentic of all the Ahadeeth narrated in this regard.
Note: Here I must clarify that mere meeting of two circumcised parts does not make Ghusl obligatory. The word “meet” in the above Hadeeth has been used in the sense of penetration, as all the scholars of Hadeeth and Fiqh unanimously believe in the light of other Ahadeeth.
It was narrated that ‘Aishah (RA) the wife of the Prophet (SAW) said:
“When the two circumcised parts meet, then the bath is obligatory. The Messenger of Allah and I did that, and we bathed.”
Hadith 608 – Vol. 1, Book 1 (The Book of Purification and its Sunnah – كتاب الطهارة وسننها) – Sunan Ibn Majah
It was narrated from ‘Amr bin Shu’aib from his father, that his grandfather said:
“The Messenger (SAW) of Allah said: ‘When the two circumcised parts meet, and (the tip of the penis) disappears, then the bath is obligatory.'”
Hadith 611 – Vol. 1, Book 1 (The Book of Purification and its Sunnah – كتاب الطهارة وسننها) – Sunan Ibn Majah
All the three above-mentioned Ahadeeth are clear. They emphasize on Ghusl being obligatory after the penetration of man’s penis into a woman’s vagina regardless of ejaculation.
As for the people who believe that ejaculation of the semen is required for Ghusl being obligatory, they present the following Hadeeth in favor of their opinion:
It was narrated from Abu Ayyub that the Prophet (ﷺ) said:
“Water is for Water.” That is, water for performing Ghusl is obligatory when the ejaculation of water (semen) occurs.
Hadith 199 – Vol. 1, Book 1 (The Book of Purification – كتاب الطهارة) – Sunan an-Nasa’i
The word “water” in the Hadeeth has been used twice. First “water” means bath and the second semen, as it is clear by different narrations of the Companions (RA) of the Prophet (SAW). Now the Hadeeth means bath is obligatory after the ejaculation of semen.
This Hadeeth emphasizes on the ejaculation of semen being required for Ghusl, but it contradicts with other Hadith which have been mentioned earlier in particular Hadeeth of Ayesha (RA) which clearly says that mere meeting (penetration) of two private parts makes Ghusl obligatory. For a reconciliation between those contradicting Hadeeth most of Muhadditheen, Mufassireen, Fuqaha & Ulama say that the Hadeeth “Water for Water” had been earlier ruling, but that was canceled later on. Even Imam Muslim narrates this Hadeeth under the chapter “Ejaculation of semen was required for Ghusl being obligatory in early Islam and which was canceled and now Ghusl is obligatory with only penetration”. Imam Tirmizi too acknowledges that the Hadeeth “Water for water” is canceled. He further quotes Ubay bin Ka’b (RA), one of the companion (RA) of the Prophet (SAW) and writer of the revelation (وحي) in favor of his opinion: “Ubay bin Ka’b (RA) says that, in early Islam ejaculation of semen was required for Ghusl being obligatory, but this ruling was canceled later on”.
Ubayy bin Ka’b (RA) narrated:
“Water is for water,’ was only permitted in the beginning of Islam. Then it was prohibited.”
Hadith 110 – Book 1 (The Book on Purification) – Jami` at-Tirmidhi
Having gone through the different Hadeeth and sayings of various Companions (RA) of the Prophet (SAW) such as Abu Bakr, Umar Farooq, Usman Ghani, Ali, Ubay bin Ka’b and Ayesah (RA) and opinions of Islamic scholars including Imam Abu Hanifa, Imam Ahmad, Imam Bukhari, Imam Muslim, Imam Nawawi and Imam Tirmizi etc, we may sum up that “Water for water” had been earlier ruling, but it was later canceled as it was cleared by Imam Muslim in his book. Now Ghusl becomes mandatory by mere penetration though one does not ejaculate semen. Purification has got great importance in Islam. Thus it is more advisable to take bath whenever we have intercourse either ejaculation happens or not.
Source: Mohammad Najeeb Qasmi (Rulings of Ghusl and Its Related Issues)
Leave a Reply